Al-Quran-al-Kareem - Nooh : 23
وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا١ۙ۬ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاۚ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَا تَذَرُنَّ : نہ تم چھوڑو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے ا لہوں کو وَلَا : اور نہ تَذَرُنَّ : تم چھوڑو وَدًّا : ود کو وَّلَا سُوَاعًا : اور نہ سواع کو وَّلَا يَغُوْثَ : اور نہ یغوث کو وَيَعُوْقَ : اور نہ یعوق کو وَنَسْرًا : اور نہ نسر کو
اور انھوں نے کہا تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ودّ کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔
(1) وقالوا لاتذرون الھتکم…: ساڑھے نو سو سال میں اللہ بہتر جانتا ہے کتنی ہی نسلیں ختم ہوئیں اور کتنی نئی پیدا ہوئیں، مگر ہر پہلا پچھلے کو جیتے جی اور مترے وقت یہی تاکید کرتا رہا کہ دیکھنا ! ن وح کے کہنے پر ود، سواع، یغوث ، یعقو اور نسر کی عبادت ہرگز ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ وہ پانچ بت تھے جن کی عبادت قوم نوح کرتی تھی۔ عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں : ”یہ پانچوں نوح ؓ کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈلای کہ (بطور یادگار) جن مجلسوں میں وہ بیٹھتے تھے وہاں ان کے بت نصب کردو اور ان کے وہی نام رکھ دو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس وقت ان کی عبادت نہیں کی گئی، یہاں تک کہ جب وہ بطور یادگار بت نصب کرنے والے) فوت ہوگئے اور (کسی کو اس بات کا) علم نہ رہا تو ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔“ (بخاری، التفسیر، باب :(ودا ولا سواعا…“: 392) اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی کا اصل باعث اکابر کی محبت میں غلو اور ان کے مجسمے بنا کر انہیں نصب کرنا تھا۔ شریعت میں تصویر کی حرمت کے دیگر اسبابکے عالوہ ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے۔ ابن عباس ؓ کی اسی روایت میں جو اوپر گزری ہے، مذکور ہے کہ یہی بات جو قوم نوح میں تھے“ بعد میں عرب کے اندر آگئے۔”ود“ دومتہ الجندل میں کلب قبیلے کا بت تھا،”سواع“ ہذیل کا تھا، ”یغوث“ مراد قبیلے کا پھر (اس کی شاخ) بنو غطیف کا تھا، جو سبا کے قریب وادی جرف میں (آباد) تھے۔ ”یعوق“ ہمدان کا اور ”نسر“ حمیر کا تھا جو ذوالکلاع کی آل تھے۔ (بخاری ، ایضاً) یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے طوفان کے بعد جس میں تمام مشرک غرق کردیئے گئے وہ بت کیسے باقی رہ گئے اور دوبارہ ان کی پرستش کیسے شروع ہوگئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان قدتری طور پر اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات جاننے کا شوق رکھتا ہے، چناچہ علم تاریخ اسی شوق کا نتیجہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نوح ؑ کے ساتھ باقی بچنے والے اہل ایمان سے بعد والین سلوں نے ان بزرگوں کی نیکی اور کرامتوں کے واقعات سنے، وقت گزرنے کیساتھ جب جہالت کا غلبہ ہوا تو شیطان نے ان کے ہاتھوں آثار قدیمہ کے طور پر وہی بت نکلوا کر یا ان سے ان اکابر کے فرضی مجسمے بنوا کر، جیسا کہ نصرانیوں نے مسیح اور مریم ؑ کے فرض مجسمے بنا رکھے ہیں، دوبارہ ان کی عبادت شروع کروا دی۔ بہرحال یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ان پانچوں بتوں کی پرستش ہوتی تھی اور باقاعدہ ان کے آستانے موجود تھے، جیسا کہ ابن عباس ؓ کی حدیث میں گزرا ہے۔ عرب میں عبدود اور عبدیغوث وغیرہ نام بھی ملتے ہیں۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایا :”واقدی کا بیان ہے کہ ”ود“ ایک آدمی کی شکل میں،”سواع“ عورت کی شکل میں ،”یغوث“ شیر کی صورت میں، ”یعقو“ گھوڑے کی شکل میں اور ”نسر“ ایک پرندے کی صورت میں تھا، مگر یہ شاذ ہے۔ مشہور یہی ہے کہ یہ سب انسانی شکل میں تھے اور ان کی عبادت کے آغاز کا جو سبب بیان ہوا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔“ (فتح الباری) حافظ ابن حجر ؒ کی بات نوح ؑ کے زمانے کے بتوں کے متعلق تو یقیناً درست ہے ، مگر بعد میں جب فرضی بت بنائے گئے تو ممکن ہے کہ ان جانوروں کی شکل پر بنائیگئے ہوں، جیسا کہ مشرک قوموں میں عامط ور پر پایا جاتا ہے۔ (واللہ اعلم) (3) رسول اللہ ﷺ نے امت مسلمہ کو شرک سے بچانے کے لئے ان دروازوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیا جہاں سے شرک داخل ہوسکتا ہے۔ قبر پرستی کے فتنے کی ابتدا قبروں پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے سے ہوتی ہے اور بت پرستی کی ابتدا تصویریں اور مجسمے بنانے سے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں چیزوں سے منع فرمایا اور اونچی قبروں کو (دوسری قبروں کے) بربار کردینے اور ہر تصویر کو مٹا دینے کا حکم دیا۔ ابوالہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے علی بن ابی طالب ؓ عنہمانے فرمایا :(الا ایعثک علی ما یعثنی علیہ رسول اللہ ﷺ ؟ ان لاتدع تمثالاً الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ) (مسلم، الجنائر، باب الامر بستسویۃ القیر : 969)”کیا میں تمہیں اس کام پر مقرر کر کے نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایا تھا ؟ وہ یہ تھا کہ کوئی مورتی نہ چھوڑو مگر اسے مٹا دو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اسے برابر کر دو۔“
Top