Al-Quran-al-Kareem - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
اپنے گناہوں ہی کی وجہ سے وہ غرق کیے گئے، پس آگ میں داخل کیے گئے، پھر انھوں نے اللہ کے سوا اپنے لیے کوئی مدد کرنے والے نہ پائے۔
(1) مما خطیئتھم اغرقوا…: یہ نوح ؑ کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں۔ جار مجور پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی صرف اپنے گناہوں (کفر و معصیت) کی وجہ سے انہیں غرق کیا گیا۔ ان کے غرق ہونے کا تفصیلی واقعہ سورة ہود، سورة مومنون اور سورة عنکبوت وغیرہ میں مذکور ہے۔”فادخلوا ناراً“ پس وہ آگ میں داخل کئے گئے، ”فائ“ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غرق ہوتے ہی انہیں آگ میں داخل کردیا گیا، یعنی قیامت کے دن جہنم میں جانے سے پہلے برزخ و قبر ہی میں وہ آگ میں داخل کردیئے گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے متعلق فرمایا :(وحاق بال فرعون سوٓء العذاب، النار یعرضون علیھا غدواً وعشیاً ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب) (المومن : 75، 36)”اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا جو آگ ہے، اس پر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔“ خلاصہ یہ کہ نوح ؑ کی قوم اور آل فرعون کو پہلے پانی میں غرق کیا گیا، پانی کے عذاب کے بعد اس کا الٹ یعنی آگ کا عذاب قبر ہی میں شروع ہوگیا ، پھر قیامت کے دن جہنم کے ”اشذ العذاب“ میں داخل کئے جائیں گے۔ یہ آیت اور سورة ممون کی آیت عذاب قبر کی زبردست دلیلیں ہیں۔ (2) فلم یجدوالھم من دون اللہ انصاراً : یعنی اللہ کے عذبا سے نہ انہیں کوئی سردار بچا سکا اور نہ ان کے پاس پنج تنوں میں سے کوئی ان کی مدد کرسکا۔
Top