Al-Quran-al-Kareem - Al-Insaan : 10
اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا
اِنَّا نَخَافُ : بیشک ہمیں ڈر ہے مِنْ : سے رَّبِّنَا : اپنا رب يَوْمًا : اس دن کا عَبُوْسًا : منہ بگاڑنے والا قَمْطَرِيْرًا : نہایت سخت
یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہوگا۔
(1) انا نخاف من ربنا…:”عبوساً“ تیوری چڑھانے والا، منہ بنانے والا۔”قمطریراً“ سخت تیوری چڑھانے والا۔ سوال یہ ہے کہ اس دن کو ”عبوساً“ اور ”قمطریراً“ کیوں کہا گیا ، جبکہ تیوری چڑھانا اور منہ بگاڑانا آدمی کا کام ہے ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس دن کی ہیبت اور سختی کی منظر کشی کے لئے اسے ایک ایسے شخص کی صورت میں پیش کیا ہے جس کے منہ اور ماتھے پر غصے کی وجہ سیسخت تیوری چڑھی ہوئی ہو۔ دوسرا یہ کہ جس طرح ”نھنارہ صائم“ (اس کا دن روزہ دار ہے) اور ”لیلہ قائم“ (اس کی رات قیام کرنے والی ہے) میں صیام وق یام کی نسبت دن اور رتا کی طرف کردی ہے، حالانکہ روزہ رکھنا اورق یام کرنا آدمی کا کام ہے، اسی طرح یہاں بھی اگرچہ دن کو تیوری چڑھانے والا کہا ہے مگر مراد یہ ہے کہ اس دن میں کافر کا چہرہ سخت تیوری والا اور بگڑا ہوا ہوگا، جیسے فرمایا :(وجوہ یومئذ باسرۃ) (القیامۃ : 23)”کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔“ (2) انا نخاف من ربنا یوماً عبوساً قمطریراً“ (یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہوگا) میں ان جاہل صوفیوں کا رد ہے جو قیامت یا جہنم کے خوف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اخلاص سے کے خلاف سمجھتے ہیں۔
Top