Al-Quran-al-Kareem - Al-Insaan : 2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّا خَلَقْنَا : بیشک ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے اَمْشَاجٍ ڰ : مخلوط نَّبْتَلِيْهِ : ہم اسے آزمائیں فَجَعَلْنٰهُ : توہم نے اسے بنایا سَمِيْعًۢا : سنتا بَصِيْرًا : دیکھتا
بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنادیا۔
(1) انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج : یعنی انسان کی پیدائش صرف مرد یا صرف عورت کے نطفہ سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں کے ملے جلے نطفہ سے ہوئی ہے، کیونکہ دونوں کے ملنے ہی سے حمل منعقد ہوتا ہے۔ ام سلیم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان ماء الرجل غلیظ ابیض وماء المراۃ رقیق اصفر فمن ابھما علا او سبق یکون من ہالشبہ) (مسلم، الحیض ، باب وجوب الغسل علی المراۃ…: 311)”مرد کا پ انی سفید گاڑھا اور عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے، ان میں سے جو غلاب آجائے یا سبقت کر جائے اسی سے مشابہت ہوتی ہے۔“ (2) نبتلیہ : ہم اسے آزماتے ہیں، یعنی انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اس کی آزمائش ہے کہ اچھے عمل کرتا ہے یا برے، جیسے فرمایا، (لیبلوکم ایکم احسن عملاً) (الملک : 2)”(اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو اس لئے پیدا فرمایا) تاکہ تمہاری آزمائش رکے کہ تم میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔“ (3) فجعلنہ سمیعاً بصیراً :”ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا“ اگرچہ جانور بھی سنتے اور دیکھتے ہیں مگر انہیں ”سمیع وبصیر“ نہیں کہاجاتا کیونکہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے اور دیکھنے کی ایسی قوتیں دی ہیں جن سے وہ اچھے برے میں تمیز کرسکتا ہے اور بہت دور تک سوچ سکتا ہے۔ گویا دوسرے جانور اس کے مقابل بہرے اور اندھے ہیں۔
Top