Al-Quran-al-Kareem - Al-Insaan : 30
وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۗۖ
وَمَا تَشَآءُوْنَ : اور تم نہیں چاہوگے اِلَّآ : سوائے اَنْ : جو يَّشَآءَ اللّٰهُ ۭ : اللہ چاہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقینا اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
(وما تشآء ون الا ان یشآء اللہ…: مگر تمہارا چاہنا اللہ کے چاہنے کے تابع ہے، وہ نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے تقدیر کے منکروں کو اسی آیت سے لاجواب کیا تھا۔ خوارج کا ایک گروہ ان کے پاس آیا اور تقدیر کے اناکر کی دلیل کے طور پر اسی سورت کی ابتدا میں سے یہ آیت پڑھی :(انا ھدینہ السبیل اما شاکراً واما کفوراً) (الدھر : 3)”یعنی ہم نے انسان کو راستہ بتادیا ہے، اب چاہے تو شکر کرنے والا بن جائے اور چاہے تو کفر کرنے والا۔“ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے فرمایا، آگے پڑھتے جاؤ، آخر میں یہ آیت آئی تو فرمایا، بیشک انسان جو راستہ چاہے اختیار کرے، مگر یہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ سے زبردست ہو کر کوئی شخص نہ نیک بن سکتا ہے نہ بد۔”ان اللہ کان علماً حکیماً“ یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت اندھی مشیت نہیں ہے، بلکہ وہ علیم ہو حکیم ہے اور اس کی مشیت اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ وہ انھی لوگوں کو ہدیات دیتا ہے جو اس کے علم و حکمت کے مطابق اس کے اہل ہیں۔
Top