Al-Quran-al-Kareem - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
جو اپنی نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہوگی۔
یوفون بالنذر…:”النذر“ اپنے آپ پر وہ چیز واجب کرلینا جو واجب نہیں ہے۔”مستطیراً“ (طار یطیر“ اڑنا اور ”استطار یستطیر“ باب اسفعال میں الفاظ زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، یعنی بہت زیادہ اڑنے والا، مراد ہے، بہت زیادہ پھینلے والا، جیسے آگیا صبح کی روشنی خوب پھیل جائے تو کہا جاتا ہے : ”استطار الحریق“ یا ”استطار الفجر“ کہ آگ بہت زیادہ پھیل گئی ہے، یا صبح کی روشنی خوب پھیل گئی ہے۔ اس آیت میں اور اس کے بعد کتین آیات میں اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کی چند صفات بیان کی گئی ہیں، ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نذر پوری کرتے ہیں، پھر جو کام اللہ تعالیٰ کی طرف ہلے ہی واجب ہیں ان پر کتنے اہتمام سے عمل کرتے ہوگے۔ نذر کے مسائل کے لئے دیکھیے سورة بقرہ (270) اور سورة حج (29) کی تفسیر۔ ان لوگوں کے نذر پوری کرنے کا باعث یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی۔ اس سے ان صوفیوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ جنت کے طمع یا جہنم کی خوف سے عبادت نہیں کرنی چاہیے۔
Top