Al-Quran-al-Kareem - An-Naba : 20
وَّ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًاؕ
وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ : اور چلا دیئے جائیں گے پہاڑ فَكَانَتْ : تو ہوں گے وہ سَرَابًا : سراب
اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب بن جائیں گے۔
(1) و سیرت الجبال فکانت سراباً :”سراباً“ جو دوپہر کے وقت دور سے دیکھنے والے کو پانی کی طرح نظر آتا ہے مگر حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح پہاڑ ریت بن جائیں گے جو دور سے پانی کی طرح نظر آتی ہے مگر حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ (2) قرآن میں قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے مختلف احوال بیان ہوئے ہیں، سب سے پہلے صور کی آواز کے ساتھ زمین اور پہاڑ ایک چوٹ سے توڑ دیئے جائیں گے، فرمایا :(وحملت الارض و الجبال قدکتا دکتہ واحدۃ) (الحافۃ : 13)”اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائیگا اور دونوں ایک ہی بار ٹکرا دیئے جائیں گے۔“ پھر بھربھری ریت ہوجائیں گے جو خود بخود گرتی جا رہی ہو، فرمایا :(وکانت الجبال کثیباً مھیلاً (المزمل : 13)”اور پہاڑ گرائی ہوئی ریت کے ٹیلے ہوجائیں گے۔“ پھر ڈھن کی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے، فرمایا :(وتکون الجبال کالعھن المنفوش) (القارعۃ : 5)”اورپ ہاڑ ڈھن کی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔“ پھر بکھرا ہوا غبار بن جائیں گے، فرمایا :(فکانت ھبآء منبتاً) (الواقعۃ : 6)”پس وہ پھیلا ہوا غبار بن جائیں گے۔“ پھر بادلوں کی طرح چلیں گے، جیسا کہ فرمایا :(وھی تمر مر السحاب) (النمل : 88)”حلان کہ ہو بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔“ پھر سراب بن جائیں گے، جیسے یہاں فرمایا ہے، پھر ان میں سے کچھ بھی نہیں رہے گا، فقط چٹیل زمین رہ جائیگی جس میں کوئی بلندی یا پستی نہیں ہوگی، جیسا کہ فرمایا :(فیذرھا قاعاً صفصفاً ، لاتری فیھا عوجاً ولا امتاً (طہ : 106، 108)”پھر وہ اسے ایک چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا، جس میں تو نہ کوئی کجی دیکھے گا نہ کوئی ابھری ہوئی جگہ۔“
Top