Al-Quran-al-Kareem - Al-Anfaal : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تَتَّقُوا : تم ڈروگے اللّٰهَ : اللہ يَجْعَلْ : وہ بنادے گا لَّكُمْ : تمہارے لیے فُرْقَانًا : فرقان وَّيُكَفِّرْ : اور دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخشدے گا تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہارے لیے (حق و باطل میں) فرق کرنے کی بڑی قوت بنادے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔
اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا : مال اور اولاد کی آزمائش سے خبردار کرنے کے بعد اب تقویٰ کی تعلیم دی ہے اور اس کے فوائد بیان کیے ہیں، تقویٰ کا مادہ ”و ق ی“ ہے اور یہ اسم مصدر ہے۔ ”تَتَّقُوا“ باب افتعال سے ہے، اس کا معنی بچنا ہے، آدمی اسی چیز سے بچتا ہے جس سے ڈرتا ہو، اس لیے اس کا معنی ڈرنا بھی کرلیا جاتا ہے۔ ”فَرْقٌ“ اور ”فُرْقَانٌ“ مصدر ہیں، دونوں کا ایک ہی معنی ہے، مگر ”فُرْقَانًا“ کے حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی اگر تم ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی نافرمانی سے بچتے رہو گے، خواہ کوئی دوسرا تمہارے پاس ہو یا نہ ہو تو تمہیں چار نعمتیں عطا ہوں گی، پہلی یہ کہ تم میں حق اور باطل کو پہچاننے اور ان کے درمیان فرق کرنے کی بہت بڑی قوت پیدا ہوجائے گی اور اس قوت کی بدولت اللہ تعالیٰ تمہیں کسی بھی شبہ، شک یا تذبذب کا شکار ہونے کے بجائے واضح طور پر ہر کام کے درست یا نا درست ہونے کی پہچان اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی قوت عطا کرے گا، تم آسانی سے حق کا فیصلہ کرکے اس پر عمل کرسکو گے۔ دیکھیے سورة حدید (28) اسی طرح وہ تمہیں فتح و نصرت عطا کرکے تمہارے اور تمہارے دشمنوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ دوسری یہ کہ وہ تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ وَاللّٰهُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : یہ چوتھی نعمت ہے۔ فضل کا معنی زائد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اتنا ہی بدلہ نہیں دے گا جتنا تم عمل کر وگے بلکہ اس سے کہیں زیادہ دے گا، کیونکہ وہ بہت زائد حتیٰ کہ تمہاری سوچ سے بھی بہت زائد عطیہ دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ) [ السجدۃ : 17 ] ”پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔“
Top