Al-Quran-al-Kareem - Al-Anfaal : 49
اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِذْ : جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض غَرَّ : مغرور کردیا ھٰٓؤُلَآءِ : انہیں دِيْنُهُمْ : ان کا دین وَمَنْ : اور جو يَّتَوَكَّلْ : بھروسہ کرے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں ایک بیماری تھی، کہہ رہے تھے ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکا دیا ہے۔ اور جو اللہ پر بھروسا کرے تو بیشک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ :”جن کے دلوں میں بیماری“ سے مراد نئے مسلمان ہیں، جن کے دلوں میں شک ختم ہو کر یقین کی پوری کیفیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ یہودی اور مدمقابل مشرکین بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ غَرَّ ھٰٓؤُلَاۗءِ دِيْنُهُمْ : یعنی ان کے دینی جوش نے ان کو بالکل دیوانہ بنادیا ہے، دیکھ رہے ہیں کہ ان کی تھوڑی سی تعداد ہے، کوئی سروسامان بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ لڑنے کے لیے ایک کے سوا دوسرا گھوڑا بھی نہیں ہے، مگر چلے ہیں قریش کے مسلح اور عظیم الشان لشکر سے مقابلہ کرنے، پاگل ہی تو ہیں جو اپنی موت کو خود دعوت دے رہے ہیں۔ رسولوں اور ان کے ساتھیوں کو پاگل و دیوانہ کہنے کا یہ سلسلہ پہلے رسول سے لے کر ہمارے رسول تک چلا آیا ہے، کیونکہ کفار وہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے جو ایمان سے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ دیکھیے سورة ذاریات (52، 53) شاہ عبد القادر ؓ فرماتے ہیں : ”مسلمانوں کی دلیری دیکھ کر منافق طعن کرنے لگے، اللہ نے فرمایا، یہ غرور (دھوکا کھانا) نہیں، توکل ہے۔“ (موضح) وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ : اور جس کا بھروسا اس سب پر غالب اور کمال حکمت والے پر ہو اس کا دل یقیناً مضبوط ہوگا، اس لیے مسلمان کفار کے عظیم الشان لشکر کے ساتھ مقابلے کے لیے ہر طرح سے آمادہ اور پر عزم ہیں۔
Top