Al-Quran-al-Kareem - Al-Anfaal : 51
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۙ
ذٰلِكَ : یہ بِمَا : بدلہ جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجے اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : بندوں پر
یہ اس کے بدلے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اس لیے کہ یقینا اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ : یعنی یہ عذاب عین عدل ہے، کیونکہ اس نے تمہارے سمجھانے کے لیے اپنے رسول بھیجے، کتابیں نازل فرمائیں، مگر تم نے ایک نہ مانی۔ ”ظَلَّامٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت ظلم کرنے والا، مگر یہاں اس پر نفی آئی ہے تو مبالغے کی نفی نہیں کہ معنی یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر بہت ظلم کرنے والا نہیں (گویا تھوڑا کرسکتا ہے) بلکہ یہاں نفی میں مبالغہ مراد ہوگا، یعنی اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرہ برابر ظلم کرنے والا بھی نہیں۔ دیکھیے فوائد سورة آل عمران (182) ایک لمبی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرے بندو ! میں نے ظلم اپنے اوپر حرام قرار دے رکھا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام ٹھہرایا ہے، لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ میرے بندو ! یہ تمہارے اپنے ہی اعمال ہیں جن کو میں محفوظ رکھتا ہوں، پھر تمہیں ان کا پورا بدلہ دوں گا، پھر جو خیر پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔“ [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : 2577، عن أبی ذر ؓ ]
Top