Al-Quran-al-Kareem - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجا اور اللہ پر بھروسا کر۔ بیشک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا : بھر پور جنگی تیاری اور جہاد جاری رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دشمن صلح کی طرف مائل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے صلح کی طرف مائل ہونے والوں سے صلح کرلینے کا حکم دیا، کیونکہ اسلامی جہاد کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے، ہر حال میں غیر مسلموں کو تہ تیغ کرنا نہیں، نہ انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہے۔ اس صلح کے نتیجے میں بہت سی دینی اور دنیوی برکات حاصل ہوں گی، مسلمانوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کفار اسلام سے واقف ہوں گے، اسلام کی اشاعت بڑھے گی، جس کا نتیجہ اسلام کا غلبہ ہوگا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو ”فتح مبین“ قرار دیا۔ بعض اوقات جزیے پر صلح ہوگی جو مسلمانوں کی مالی قوت میں اضافے کا باعث ہوگی اور دنیا میں جنگ کے ماحول کے بجائے امن و اطمینان کا دور دورہ ہوگا جو صرف اسلام کے غلبے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ محض ہمت ہار کر بزدلی کی وجہ سے خود دشمن کو صلح کی پیش کش اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ دیکھیے سورة محمد (35) صلح کی صورت میں کفار کی عہد شکنی یا سازشوں کے خطرے کی پروا نہ کریں، بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھیں، وہ سب کچھ سن رہا ہے، دیکھ رہا ہے۔
Top