Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ان مشرکوں کی طرف بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔
یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد 9 ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورة توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال (سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَھُوَ حَبْرٌ) ”جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کرلیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔“ [ أحمد : 6؍82، ح : 24585، عن عائشۃ ؓ ] اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ”توبہ“ اور دوسرا ”براء ۃ“ ہے۔ ”توبہ“ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ”براء ۃ“ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براءت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ”سورة الفاضحہ“ یعنی (منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی ﷺ نے اس کے شروع میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ نہیں لکھوائی، اس لیے صحابہ کرام ؓ نے نہیں لکھی۔ بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ ﷺ فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہوجائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : (لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً) [ التوبۃ : 10 ] ”یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔“ اور فرمایا : (اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ) [ التوبۃ : 13 ] ”کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔“ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ 9 ھ میں ابوبکر صدیق ؓ کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ ﷺ کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بےحیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔
Top