Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 11
فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ١ؕ وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر وہ تَابُوْا : توبہ کرلیں وَاَقَامُوا : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَ : اور اٰتَوُا الزَّكٰوةَ : ادا کریں زکوۃ فَاِخْوَانُكُمْ : تو تمہارے بھائی فِي : میں الدِّيْنِ : دین وَنُفَصِّلُ : اور کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : علم رکھتے ہیں
پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں، اور ہم ان لوگوں کے لیے آیات کھول کر بیان کرتے ہیں جو جانتے ہیں۔
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ : یعنی ایمانی اخوت، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة حجرات (10) میں کیا ہے : (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ)”مومن تو سب بھائی ہی ہیں“ وہ ان تین چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ان تین چیزوں سے انھیں اسلامی معاشرے میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”یہ جو فرمایا بھائی ہیں حکم شرع میں، اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائن سے معلوم ہو کہ ظاہر میں مسلمان ہے اور دل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم ظاہری میں مسلمان گنیں، مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں۔“ (موضح) یہ بات پہلے بھی گزری ہے یہاں مزید تاکید ہوگئی کہ نماز اور زکوٰۃ کا محض اقرار ہی اخوت دینی کے لیے کافی نہیں بلکہ عملاً ان کی ادائیگی امت مسلمہ میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے اور مسلمان حاکم پر لازم ہے کہ ان کی عدم ادائیگی پر باز پرس کرے اور سزا دے اور اگر وہ ان کی ادائیگی سے انکار یا انھیں مذاق کریں تو ابوبکر ؓ کی طرح انھیں مرتد قرار دے کر ان سے جنگ کی جائے۔ وَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اس کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی آیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
Top