Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 92
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ
وَّلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِذَا : جب مَآ اَتَوْكَ : جب آپکے پاس آئے لِتَحْمِلَهُمْ : تاکہ آپ انہیں سواری دیں قُلْتَ : آپ نے کہا لَآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا مَآ اَحْمِلُكُمْ : تمہیں سوار کروں میں عَلَيْهِ : اس پر تَوَلَّوْا : وہ لوٹے وَّاَعْيُنُهُمْ : اور ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ رہی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو (جمع) حَزَنًا : غم سے اَلَّا يَجِدُوْا : کہ وہ نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں
اور نہ ان لوگوں پر کہ جب بھی وہ تیرے پاس آئے ہیں، تاکہ تو انھیں سواری دے تو تو نے کہا میں وہ چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کروں، تو وہ اس حال میں واپس ہوئے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ رہی تھیں، اس غم سے کہ وہ نہیں پاتے جو خرچ کریں۔
وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ : یہ مخلص مسلمانوں کے ایک اور گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں نہیں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سواریاں لینے کے لیے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا، میرے پاس تمہیں سواری دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس پر انھیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ رونے لگے اور ایسے روئے گویا آنکھیں پانی کے چشمے بن گئیں، جن سے آنسوؤں کی نالیاں رواں ہوں کہ ہمارے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں کہ ہم جہاد میں شریک ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی گناہ سے بری قرار دیا کہ ان لوگوں پر اعتراض کا کوئی راستہ اور کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ محسنین ہیں۔ اس آیت پر ان لوگوں کو خلوص کے ساتھ غور کرنا چاہیے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دنیا و آخرت کے خزانوں کے مالک اور مختار کل ہیں۔ یہ حضرات آپ کے اس فرمان کا ترجمہ کیا کریں گے : (لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ) ”میں وہ چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کروں۔“ ان بھائیوں کو اللہ کا خوف کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کو مالک الملک اور مختار کل کہہ کر اللہ کا شریک بنانے سے توبہ کرنی چاہیے، کیونکہ یہ گناہ اللہ کے ہاں کسی صورت قابل معافی نہیں ہے۔
Top