سورة فاتحہ کے اسماء اور فضائل
سورۂ فاتحہ مکی ہے، بعض علماء نے اسے مدنی بھی کہا ہے اور بعض علمائے تفسیر نے فرمایا کہ یہ سورت دو بار نازل ہوئی ہے ‘ ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں، اس سورت کے بہت سے نام ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحہ ہے، تفسیر اتقان میں پچیس نام ذکر کئے ہیں ‘ جن میں چند نام یہ ہیں : فاتحۃ الکتاب، فاتحۃ القرآن، ام الکتاب، ام القرآن، السبع المثانی، سورة المناجاۃ، سورة السوال، سورة الحمد، سورة الشکر۔
سورۂ حجر میں فرمایا ہے : (وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ) ” اور ہم نے آپ کو سات آیتیں دیں۔ جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور قرآن عظیم دیا۔ “
السبع (سات) اس لیے فرمایا کہ اس میں سات آیات ہیں اور مثانی اس لیے فرمایا کہ یہ سورت بار بار پڑھی جاتی ہے۔ امام بخاری ؓ اپنی کتاب صحیح بخاری 642 ج 2 میں فرماتے ہیں کہ سورة فاتحہ کا نام ام الکتاب اس لیے رکھا گیا کہ یہ مصاحف میں بالکل شروع میں لکھی جاتی ہے اور نماز میں بھی اسی سے قرأت شروع کی جاتی ہے اور فاتحہ کی یہ بھی بہت بڑی فضلیت ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔
احادیث شریفہ میں سورة فاتحہ کی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ صحیح بخاری ص 642 ج 2 میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سورة فاتحہ کو اعظم سورة فی القرآن (یعنی قرآن کی عظیم ترین سورت) فرمایا۔ سنن ترمذی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سورة فاتحہ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کی قسم اس جیسی سورت نہ توریت میں اتاری گئی نہ انجیل میں نہ زبور میں نہ قرآن میں (باب ماجاء فی فضل فاتحۃ الکتاب) حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سورة فاتحہ کو افضل القرآن بتایا۔ (درمنثورص 5 ج 1) بعض احادیث میں سورة فاتحہ کو دو تہائی قرآن کے برابر فرمایا ہے۔ (درمنثورص 5 ج 1)
حضرت ابوامامۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں اس خزانہ سے اتاری گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے۔ ان چار کے علاوہ اس میں سے کوئی چیز نہیں اتاری گئی (1) ام الکتاب (2) آیۃ الکرسی (3) سورة بقرہ کی آخری آیات (4) سورة کوثر۔ (درمنثورص 5 ج 1 عن الطبرانی والضیاء المقدسی فی المختارۃ)
حضرت مجاہد تابعی ؓ نے فرمایا کہ ابلیس ملعون چار مرتبہ رویا، ایک تو اس وقت رویا جب سورة فاتحہ نازل ہوئی، دوسرے اس وقت جب وہ ملعون قرار دیا گیا، تیسرے جب زمین پر اتارا گیا، چوتھے جب سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی۔ (درمنثورص 5 ج 1)
صحیح مسلم ص 271 ج 1 میں ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) فخر عالم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا، ایک فرشتہ نازل ہوا، حضرت جبریل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا۔ اس فرشتہ نے آنحضرت ﷺ کو سلام کیا اور عرض کیا کہ آپ خوشنجری سن لیجئے، دو نور آپ کو ایسے ملے ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے : (1) فاتحۃ الکتاب (2) سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں (ان میں دعا ہے اور چونکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہے اس لیے مقبول ہے) ان دونوں میں سے جو بھی کچھ تلاوت کریں گے اللہ تعالیٰ ضرور آپ کا سوال پورا فرمائیں گے۔
تفسیر اتقان میں ہے کہ حضرت حسن بصری ؓ نے فرمایا کہ سورة فاتحہ میں (اجمالی طور پر) قرآن شریف کے تمام مقاصد اور مضامین جمع کردیئے ہیں۔ یہ سورت مطلع القرآن ہے اور یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ یہ سورت پورے قرآن شریف کے لیے براعت استہلال کا حکم رکھتی ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ قرآن شریف اور تمام آسمانی ادیان چار علوم پر مشتمل ہیں۔ اول علم الاصول جس میں تین چیزیں ہیں۔ (1) اللہ پاک کی ذات وصفات کو جاننا، اس کی طرف سورة فاتحہ میں شروع کی دو آیتوں میں اشارہ ہے۔ (2) نبوت و رسالت، اس کی طرف (اَلَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ) میں ارشاہ ہے۔ (3) قیامت اس کی طرف (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) میں اشارہ ہے۔ دوم علم العبادات، اس کی طرف (اِیَّاکَ نَعْبُدُ ) میں اشارہ ہے۔ سوم، علم السلوک یعنی نفس کو آداب شرع کا پابند بنایا اور احکام خداوندی کی فرماں برداری پر آمادہ کرنا اس کی طرف (وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) میں اور (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) میں اشارہ ہے۔ چہارم علم القصص یعنی گزشتہ امتوں کے واقعات، ان واقعات سے یہ غرض ہے کہ فرماں برداروں کی سعادت و کامیابی اور نافرمانوں کی بدبختی و بربادی معلوم کرکے عبرت حاصل کی جائے۔ اس مقصد کی طرف (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ ) میں اشارہ ہے۔
مسلم شریف ص 170 ج 1 میں ہے کہ آنحضرت فخر عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے نماز کو (یعنی نماز کے اہم ترین حصہ کو) اپنے اور بندہ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے اور بندہ جو سوال کرے اس کے لیے وہی ہے (اس کے بعد اس تقسیم کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی کہ) جب بندہ کہتا ہے : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ ) (یعنی میرے بندہ نے میری تعریف کی) پھر جب وہ کہتا ہے : (اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ ) (یعنی میرے بندہ نے میری بڑائی بیان کی) پھر جب وہ کہتا ہے : (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ ) (یعنی بندہ نے میری بزرگی بیان کی) پھر جب وہ کہتا ہے : (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے اس کے لیے وہی ہے۔ (یہ آیت اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جہاں بندہ نے اپنی بندگی کا اعلان اور اقرار کیا اور مدد مانگنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو خاص کرلیا اور مان لیا اور اس طرح خود کو رحمت ونعمت کی نوازش کے قابل بنا لیا وہاں اس نے بلا شرکت غیرے اللہ پاک کی معبودیت کا بھی اعلان کیا اور یہ بھی مانا اور جانا اور دوسروں کو بتایا کہ جس سے مدد مانگی جائے وہ صرف اللہ پاک رؤف ورحیم احد و صمد ہے جو سب کچھ دے سکتا ہے اور جس کے سب محتاج ہیں اور جس کے قبضہ میں ہر چیز ہے اور جس کسی کے پاس قلیل و کثیر جو کچھ بھی ہے سب اسی کا دیا ہوا ہے) پھر جب بندہ کہتا ہے : (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْن) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میرے بندہ کے لیے ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے اس کے لیے وہی ہے۔
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
تعوذ اور تسمیہ کا بیان :
جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کی جائے تو اوّل (اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ) پڑھا جائے سورة نحل میں ارشاد ہے : (فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ) (سو جب تو قرآن پڑھنا شروع کرے تو اللہ کی پناہ مانگ شیطان مردود سے) اور اس کے بعد (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم) پڑھا جائے۔
جب کسی مکان میں رہنے کا ارادہ کیا جاتا ہے تو اس کو تکلیف دینے والی چیزوں سے صاف ستھرا کرتے ہیں پھر اس کو زینت دیتے ہیں یعنی رنگ و روغن کرتے ہیں۔ اسی طرح سے جب تلاوت شروع کریں تو پہلے اپنے دل کو شیطان مردود کے وسوسوں سے پاک کریں۔ اس کے لیے (أَعُوْذُ باللّٰہِ ) (آخر تک) پڑھی جائے۔ پھر اللہ کا نام لے کر دل کو مزین کریں۔ نماز میں سب سے پہلے سورة فاتحہ پڑھی جاتی ہے اور اس کو شروع کرنے سے پہلے دل کو شیطانی وسوسوں سے صاف کیا جاتا ہے اور اللہ کے نام سے دل کو مزین کیا جاتا ہے۔ جب آدمی نماز شروع کرے تو ان چیزوں سے ذہن فارغ کرلے جن میں شیطان لگائے رہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل بنانے والی ہیں۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ بھی جب کوئی سورت شروع کرے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھے، البتہ سورة انفال ختم کرکے سورة برأت شروع کرے تو بسم اللہ نہ پڑھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؓ کے نزدیک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم قرآن کی ایک آیت ہے جو سورتوں کے درمیان فصل کرنے کے لیے نازل کی گئی ہے۔ لیکن سورة فاتحہ یا اس کے علاوہ کسی دوسری سورت کا جزو نہیں ہے۔ البتہ سورة نمل کے دوسرے رکوع میں جو ایک جگہ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم) ہے وہ سورة نمل کا جزو ہے۔ ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ سورة فاتحہ میں سات آیات ہیں جو حضرات (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم) کو سورة فاتحہ کا جزو مانتے ہیں وہ اس کو ایک آیت شمار کرتے ہیں اور (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) سے لے کر ختم سورت تک چھ آیات شمار کرتے ہیں (حضرت امام شافعی ؓ کا یہی مذہب ہے) اور جن ائمہ اور قراء کے نزدیک (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ) سورة فاتحہ کا جزو نہیں ہے ان کے نزدیک (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ ) ساتویں آیت ہے۔ (معالم التنزیل ص 39 ج 1)
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کو سورت ختم ہونے کا علم نہ ہوتا تھا جب تک (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم) نازل نہ ہوجاتی تھی۔ جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْکا نزول ہوتا تو آپ سمجھ لیتے تھے کہ سورت ختم ہوگئی اور اب نئی سورت شروع ہو رہی ہے۔ (درمنثورص 7 ج 1)
تفسیر معالم التنزیل ص 7 3 ج 1 میں لکھا ہے کہ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم) ہر سورت کے شروع میں ہونا اللہ پاک کی طرف سے بندوں کو تعلیم ہے کہ قرأت سے پہلے اس کو پڑھیں اور قرأت شروع کرنے کا ادب جان لیں۔