Anwar-ul-Bayan - Yunus : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد جب ہم انہیں اپنی رحمت چکھا دیں تو اچانک ہماری آیتوں کے بارے میں مکر کرنے لگتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ بلاشبہ اللہ مکر کی سزا جلد ہی دینے والا ہے ' بلاشبہ ہمارے فرشتے تمہارے مکر کے کاموں کو لکھ لیتے ہیں '
صاحب روح المعانی (ص 93 ج 11) لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر سات سال تک قحط بھیج دیا تھا ‘ قریب تھا کہ اس کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں ‘ انہیں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ خوشحالی کے لئے دعا فرمائیں اگر یہ قحط کی مصیبت دور ہوجائے اور ہمیں خوشحالی مل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور اہل مکہ پر رحم فرمایا تو ایمان لانے کی بجائے وہی پرانا ڈھنگ اختیار کرلیا اور اللہ کی آیات میں طعن کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ سے وہی معاندانہ سلوک کرنے لگے جو پہلے کرتے تھے اور ایسی شرارتیں اور حیلہ بازیاں کرنے لگے جن کو انہوں نے قرآن پر ایمان نہ لانے کا بہانہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری آیات کے بارے میں مکر کرنے لگتے ہیں۔ یعنی آیات کو نہ ماننے کے بہانے تراش لیتے ہیں اور طعن وتشنیع سے پیش آتے ہیں قُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًا آپ فرما دیجئے کہ مکر کی سزا اللہ تعالیٰ جلد ہی دینے والا ہے ‘ جب شرارت و بغاوت پر اتر آئیں تو اطمینان سے نہ بیٹھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد ہی اس کا بدلہ مل جائے گا۔ (اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَ ) (بےشک ہمارے فرشتے لکھ لیتے ہیں جو تم حیلہ سازیاں کرتے ہو) اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتے ہوئے تمہاری حرکتیں اور شرارتیں اور حیلہ سازیاں دفتروں میں بھی محفوظ ہیں ‘ آیت کریمہ کا سبب نزول خواہ وہی ہو جو صاحب روح نے لکھا ہے لیکن قرآن کریم میں انسانوں کا ایک عام طریقہ کار بیان فرما دیا کہ جب انسان کو دکھ تکلیف کے بعد کوئی نعمت مل جاتی ہے تو وہ اللہ کی آیات کو جھٹلانے لگتا ہے اور حیلہ سازی اور کٹ حجتی پر اتر آتا ہے وہ یہ نہیں سمجھتا کہ پھر بھی مجھے تکلیف پہنچ سکتی ہے ‘ بعض مرتبہ دنیا ہی میں مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور موت بھی تو جلدی ہی آنی ہے ہر کافر کا موت کے وقت سے ہی عذاب شروع ہوجاتا ہے پھر آخرت میں پیشی ہوگی ‘ اعمال نامے سامنے آئیں گے جن میں فرشتوں نے ان لوگوں کی کجروی اور حیلہ سازی کو لکھ لیا تھا ‘ یہ اعمال نامے ان پر حجت ہوں گے اور دوزخ میں دائمی آگ میں جلنے کی سزا پائیں گے۔
Top