بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Humaza : 1
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ
وَيْلٌ : خرابی لِّكُلِّ : واسطے، ہر هُمَزَةٍ : طعنہ زن لُّمَزَةِۨ : عیب جو
بڑی خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو عیب نکالنے والا ہو، طعنہ دینے والا ہو،
اوپر سورة الہمزہ کا ترجمہ لکھا گیا ہے، اس میں ھُمَزَة اور لُمَزَة کی ہلاکت بتائی ہے یہ دونوں فُعَلَةٌ کے وزن پر ہیں۔ پہلے لفظ کے حروف اصلی ھ م ز، اور دوسرے کلمہ کے حروف اصلی ل، م، ز ہیں۔ یہ دونوں کلمے عیب نکالنے اور عیب دار بتانے پر دلالت کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی وارد ہوئے ہیں اور سورة القلم میں ہے : ﴿وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ0010 هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِيْمٍۙ0011﴾ اور سورة توبہ میں فرمایا ﴿وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ﴾ اور سورة الحجرات میں فرمایا ﴿وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ﴾ حضرات مفسرین کرام نے دونوں کلموں کی تحقیق میں بہت کچھ لکھا ہے۔ خلاصہ سب کا یہی ہے کہ دونوں کلمے عیب لگانے، غیبت کرنے، طعن کرنے، آگے پیچھے کسی کی برائی کرنے پر دلالت کرتے ہیں۔ زبان سے برائی بیان کرنا یا ہاتھوں سے یا سر سے یا بھوؤں کے اشارہ سے کسی کو برا بتانا ہنسی اڑانا مجموعی حیثیت سے یہ دونوں کلمے ان چیزوں پر دلالت کرتے ہیں۔ (راجع تفسیر القرطبی صفحہ 181، صفحہ 184 ج 10) مفسرین نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے یہ آیات اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئیں یہ لوگوں پر طعن کرتا تھا، ابن جریج (رح) کا قول ہے کہ ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں، جو غیر موجودگی میں رسول اللہ ﷺ کی غیبت کرتا تھا اور سامنے بھی آپ کی ذات گرامی کا عیب نکالتا تھا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ابی بن خلف کے بارے میں اور چوتھا قول یہ ہے کہ جمیل بن عامر کے بارے میں ان کا نزول ہوا۔ سبب نزول جو بھی ہو مفہوم اس کا عام ہے، جو لوگ بھی غیبت کرنے اور عیب لگانے اور بدزبانی اور اشارہ بازی کا مشغلہ رکھتے ہیں اور وہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں قرآن کریم میں ان لوگوں کے لیے ویل یعنی ہلاکت بتائی ہے۔ جن لوگوں کو اپنی عمر کی قدر نہیں ہوتی وہ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور عیب لگانے اور غیبت کرنے اور تہمتیں باندھنے میں اپنی زندگی برباد کرتے ہیں۔ ذکرو فکر اور عبادت میں وقت لگانے کی بجائے ان باتوں میں وقت لگاتے ہیں اور اپنی جان کو ہلاک کرتے ہیں۔ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 411) ۔ حضرت عبدالرحمن بن غنم اور اسماء بنت یزید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سب سے اچھے بندے وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے اور اللہ کے بد ترین بندے وہ ہیں جو چغلی کو لیے پھرتے ہیں دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں جو لوگ برائیوں سے بری ہیں انہیں مصیبت میں ڈالنے کے طلب گار رہتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 415) حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں نے صفیہ کا قد بیان کرتے ہوئے یوں کہہ دیا کہ صفیہ اتنی سی ہیں (ان کا قد چھوٹا بتادیا اور وہ بھی ازواج مطہرات میں سے ہیں) آپ نے فرمایا تو نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر وہ سمندر میں ملا دیا جائے تو اسے بھی بگاڑ کے رکھ دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 412) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ طعنے دینے والا لعنت بکنے والا اور فحش کام میں لگنے والا مومن نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 413) غیبت کے بارے میں مستقل مضمون سورة ٴ حجرات کے دوسرے رکوع کی تفسیر میں گزر چکا ہے اس کا مراجعہ کرلیا جائے۔
Top