Anwar-ul-Bayan - Hud : 105
یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ۚ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ
يَوْمَ : جس دن يَاْتِ : وہ آئے گا لَا تَكَلَّمُ : نہ بات کرے گا نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے شَقِيٌّ : کوئی بدبخت وَّسَعِيْدٌ : اور کوئی خوش بخت
جس وقت وہ دن آئے گا کوئی شخص اللہ کی اجازت کے بغیر بات نہ کرسکے گا سو ان میں شقی ہوں گے اور سعید ہوں گے۔
قیامت کے دن سب جمع ہوں گے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کو بولنے کی اجازت نہ ہو گی ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ گزشتہ امتوں کے جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو ‘ پھر یہ فرمایا کہ آخرت کے دن میں سب لوگ جمع ہوں گے اور یہ حاضری کا دن ہے یہ جبری حاضری ہوگی کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ میں حاضر نہ ہوں تو ایسا ہو نہیں سکتا ‘ حاضر ہونا ہی پڑے گا مزید فرمایا کہ ہم اس دن کو تھوڑی مدت کے لئے مؤخر کر رہے ہیں جس وقت اس کا آنا اللہ تعالیٰ کے علم میں متعین ہے اس وقت آجائے گی اس سے پہلے نہیں آئے گی لیکن فوری اور ابھی نہ آنے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ آنی ہی نہیں اس میں ان جاہلوں کی تردید ہے جو یوں کہتے ہیں کہ سینکڑوں سال سے سن رہے ہیں کہ قیامت ایک دن آئے گی۔ ابھی تک تو آئی نہیں ‘ یہ بات کہہ کر جاہل لوگ قیامت کے دن کا انکار کرنا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کی جہالت ہے کسی چیز کا اپنے مقررہ وقت تک مؤخر ہوجانا اگرچہ تاخیر زیادہ ہوجائے اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کا وقوع نہ ہوگا پھر فرمایا (یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) (جس وقت وہ دن آجائے گا تو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بات نہ کرسکے گا) یہ ابتدائی حالت کا بیان ہے جیسے ہی صور پھونکا جائے گا لوگ حیران و پریشان اور بےہوش ہوجائیں گے اس وقت کی ہیبت ایسی ہوگی کہ کسی کو بھی بولنے کی تاب نہ ہوگی سورة ابراہیم میں فرمایا (اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ ۔ مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْءِدَتُھُمْ ھَوَآءٌ) (وہ انہیں اسی دن کے لئے مؤخر فرما رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔ تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے اپنے سروں کو اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ان کی نظر ان کی طرف واپس نہ لوٹے گی اور ان کے دل بالکل ہوا ہوں گے) ۔ پھر جب حساب کتاب شروع ہوگا تو بولنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ لہٰذا اس آیت میں اور ان دیگر آیات میں کوئی تعارض نہیں جن میں انکار کرنے پھر اقرار کرنے اور معذرت پیش کرنے کا ذکر ہے ‘ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور علماء اور شہداء اجازت کے بعد سفارش کریں گے ‘ اس کے بعد حاضرین محشر کی دو قسمیں بتائیں اور وہ یہ ہیں کہ بہت سے لوگ شقی یعنی بدبخت ہوں گے اور بہت سے لوگ سعید نیک بخت ہوں گے پھر ہر فریق کا مقام بتایا جو لوگ بدبخت ہوں گے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائیں گے جس میں وہ چیخ پکار کرتے ہوں گے اس میں ہمیشہ رہیں گے ” چیخ و پکار “ زفیر اور شہیق کا ترجمہ کیا گیا ہے زفیر گدھے کی ابتدائی آواز کو اور شہیق اس کی آخری آواز کو کہا جاتا ہے معلوم ہوا کہ ان کا چیخنا پکارنا گدھوں کی آواز کی طرح ہوگا۔ اور نیک بختوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں ہوں گے اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اہل جنت کو جو کچھ عطا فرمایا جائے گا وہ دائمی ہوگا کبھی منقطع نہ ہوگا۔ آخر میں فرمایا کہ اے مخاطب جس چیز کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں یعنی غیر اللہ کو پوجتے ہیں ان کے اس عمل کے موجب سزا ہونے کے بارے میں ذرا بھی شبہ نہ کرنا یہ لوگ اسی طرح عبادت کرتے ہیں۔ جیسے ان کے باپ دادے ان سے پہلے غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے یہ جو کچھ دنیا میں کر رہے ہیں اس کا بدلہ انہیں پورا پورا مل جائے گا جس میں ذرا بھی کمی نہ ہوگی۔ فوائد ضروریہ (1) آیت بالا سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن حاضر ہونے والوں کی دو ہی قسمیں ہوں گی کچھ لوگ شقی (بدبخت) اور کچھ لوگ سعید (نیک بخت) ہوں گے یعنی ایک جماعت اہل ایمان کی اور دوسری اہل کفر کی ہوگی۔ اہل ایمان سعید یعنی نیک بخت ہوں گے اور اہل کفر شقی یعنی بد بخت ہوں گے سورة شوریٰ میں فرمایا (فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر) (ایک جماعت جنت میں اور ایک جماعت دوزخ میں ہے) اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر دوزخ میں ہوں گے۔ اہل کفر تو کبھی دوزخ سے نہ نکلیں گے۔ البتہ جو اہل ایمان اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں چلے جائیں گے وہ اس میں سے نکال لیے جائیں گے اور جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے جس کا ذکر بہت سی احادیث میں آیا ہے ‘ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے معاف نہ فرمایا ہوگا اور بہت سے گنہگار وہ ہوں گے جن کی معافی عذاب بھگتے بغیر ہی ہوجائے گی اللہ بلا شفاعت ہی معاف فرمائیں گے۔ اور شفاعتیں بھی قبول فرمائیں گے انجام کے اعتبار سے سارے مومن جنت میں اور سارے کافردوزخ میں رہ جائیں گے۔ کافر کبھی دوزخ سے نہ نکالے جائیں گے جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا (وَمَا ھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ ) اور اہل جنت شروع داخلہ سے لے کر ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے نہ اس میں سے نکالے جائیں گے نہ اس میں سے کہیں جانا پسند کریں گے سورة حجر میں فرمایا (لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ ) اور سورة کہف میں فرمایا (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلًا) جب سارے اہل ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے تو موت کو جنت اور دوزخ کے درمیان مینڈھے کی شکل میں لا کر ذبح کردیا جائے گا اور یہ ندادی جائے گی کہ یا اھل الجنۃ خلودٌ لا موت ویا اھل النار خلودٌ لا موت۔ کہ اے جنتیو ! اب موت نہیں اور اے دوزخیو اب موت نہیں۔ (رواہ البخاری ص 691 ج 2 ومسلم ص 382 ج 2) قرآن مجید میں جیسے اہل جنت کے بارے میں (خٰلِدِیْنَ فِیْھَااَبَدًا) فرمایا ہے اسی طرح سے اہل دوزخ کے بارے میں بھی فرمایا کہ (دیکھو سورة نسآء رکوع 23) اور سورة احزاب (رکوع 8) اور سورة جن (رکوع 2) بعض لوگوں کو اہل کفر سے ہمدردی پیدا ہوگئی اور انہوں نے خواہ مخواہ آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کا انکار کر کے اپنی جان کو گمراہی میں پھنسا دیا۔ بہت سے لوگ اس گمراہی کی تائید کیلئے لکیر پیٹ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کافر کبھی نہ کبھی دوزخ سے نجات پاجائیں گے۔ اور دوزخ ختم ہوجائے گی۔ یہ لوگ قرآن مجید کو جھٹلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ دے۔ (آمین) (2) آیت بالا میں اہل شقاوت کی سزا اور اہل سعادت کی جزا بیان کرنے کے بعد دونوں جگہ (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا) کے ساتھ (مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ) بھی فرمایا ہے اس کے بارے میں مفسرین نے فرمایا ہے یہ اہل عرب کے محاورہ کے مطابق ہے اہل عرب یہ الفاظ بول کر دوام اور ہمیشگی مراد لیا کرتے تھے ‘ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے جنت و دوزخ کے آسمان و زمین مراد ہیں جو چیز ان کے نیچے ہوگی اس سے زمین مراد لی ہے اور جو چیزان کے اوپر سقف یعنی چھت کے طور پر ہوگی اس سے آسمان مراد لیا ہے جنت و دوزخ کے آسمان و زمین ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بات کسی درجہ میں سمجھ میں آتی تو ہے کیونکہ جنت کیلئے ارض کا لفظ قرآن میں بھی وارد ہوا ہے۔ کما فی سورة الزمر (اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ ) اور سروں کے اوپر جو کچھ ہوگا اسے اوپر ہونے کی وجہ سے سماء بھی کہا جاسکتا ہے لِاَنَّ کُلَّ مَا اَظَلِّک فھو سمآء (لیکن چونکہ سَمٰوٰتُ جمع کے صیغے کے ساتھ وارد ہوا ہے اس لئے جب تک وہاں تعداد سماء ثابت نہ ہو اس وقت تک اس بات کے سمجھنے میں تامل ہے) (مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ) کے ساتھ دونوں جگہ (اِلَّا مَاشَآء رَبُّکَ ) بھی فرمایا ہے۔ حضرات مفسرین کرام نے یہاں بڑی بحث کی ہے مستثنیٰ منہ کون ہے استثناء متصل ہے یا منقطع ؟ اور استثناء کا مطلب کیا ہے احقر کے نزدیک سب سے زیادہ راجح بات وہ ہے جو علامہ بغوی (رح) نے معالم التنزیل (ص 402 ج 2) میں فرآء سے نقل کی ہے انہوں نے فرمایا کہ ھٰذا استثناءٌ استثنآہ اللّٰہُ وَلَا یَفْعَلُہٗ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خلود سے استثناء تو ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اہل دوزخ کو دوزخ سے اور اہل جنت کو جنت سے نکال لے لیکن وہ نکالے گا نہیں (کیونکہ ہر فریق کے خلود و دوام کا فیصلہ فرما دیا ہے ‘ جس کا ذکر قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہے) فرآء کے اس قول کو صاحب روح المعانی نے بھی بحوالہ امام بغوی نقل کیا ہے پھر بعض افاضل سے نقل کیا ہے کہ اس استثناء کا یہ فائدہ ہے کہ کوئی شخص یوں نہ سمجھ لے کہ دوزخیوں کو عذاب دینا اور جنتیوں کو جنت میں نعمتیں دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ واجب ہے اس کے ذمہ کچھ بھی واجب نہیں وہ جو چاہے کرے نہ وہ عذاب دینے پر مجبور ہے اور نہ اکرام وانعام پر ‘ اگر وہ کسی دوزخی کو دوزخ سے نکال لے یا کسی جنتی کو جنت سے باہر لائے تو وہ یہ کرسکتا ہے اس کی مشیت اور ارادہ اور اختیار کبھی نہ سلب ہوا نہ سلب ہوگا۔
Top