Anwar-ul-Bayan - Hud : 21
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانوں کا (اپنا) وَضَلَّ : اور گم ہوگیا عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ افترا کرتے تھے (جھوٹ باندھتے تھے)
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جانوں کو برباد کر بیٹھے اور وہ جو کچھ انہوں نے جھوٹ بنایا تھا وہ سب غائب ہوگیا
پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَھُمْ ) (کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جانوں کا خسارہ کر بیٹھے) دنیاوی تجارت میں تو لوگوں کو اموال کا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن ان کی تجارت ایسی برباد ہوئی کہ انہیں اپنی جانوں ہی کا خسارہ ہوگیا ‘ انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی اور آخرت کے بدلے دنیا لے لی اور اس طرح اپنی جانوں ہی کو گنوا بیٹھے۔ اگر کسی کے دل میں یہ سوال اٹھے کہ خسارہ تو جب ہوتا ہے جب جانیں ختم ہوجاتیں اور ان کا وجود ہی نہ رہتا لیکن کافر کی جان دنیا میں بھی موجود ہے اور آخرت میں بھی موجود رہے گی پھر بھی جان کا خسارہ کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کافر دوزخ میں جائے گا جو وہ موت سے بھی بدتر ہے جو جان برابر ہمیشہ کے لئے عذاب میں ہے وہ جان ہلاک بھی ہے اور برباد بھی ہے اور جان کہنے کے لائق بھی نہیں اسی لئے تو فرمایا (ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْییٰ ) (پھر وہ اس میں نہ مرے گا نہ زندہ رہے گا) پھر فرمایا (وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) (اور ان سے وہ سب کچھ گم ہوگیا جو وہ جھوٹ باندھا کرتے تھے) یعنی معبود ان باطلہ کی سفارش کا جو گمان کر رکھا تھا۔ وہ جھوٹا خیال تھا اس نے کچھ کام نہ دیا۔
Top