Anwar-ul-Bayan - Hud : 27
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ١ۚ وَ مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِیْنَ
فَقَالَ : تو بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْ قَوْمِهٖ : اس کی قوم کے مَا نَرٰىكَ : ہم نہیں دیکھتے تجھے اِلَّا : مگر بَشَرًا : ایک آدمی مِّثْلَنَا : ہمارے اپنے جیسا وَ : اور مَا نَرٰىكَ : ہم نہیں دیکھتے تجھے اتَّبَعَكَ : تیری پیروی کریں اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو هُمْ : وہ اَرَاذِلُنَا : نیچ لوگ ہم میں بَادِيَ الرَّاْيِ : سرسری نظر سے وَمَا : اور نہیں نَرٰي : ہم دیکھتے لَكُمْ : تمہارے لیے عَلَيْنَا : ہم پر مِنْ : کوئی فَضْلٍ : فضیلت بَلْ نَظُنُّكُمْ : بلکہ ہم خیال کرتے ہیں تمہیں كٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اس پر سرداروں نے کہا جو کافر تھے کہ ہم تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھ رہے ہیں اور جو لوگ تمہارا اتباع کرنے والے ہیں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہم میں ذلیل ترین لوگ ہیں جو سر سری رائے میں تمہارے ساتھ ہوئے۔ اور ہم اپنے اوپر تمہاری کوئی فضیلت نہیں دیکھتے بلکہ ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں
حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تبلیغ فرمانا اور قوم کا ہٹ دھرمی کے ساتھ معارضہ کرنا سیدنا حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) سے دس قرنوں کے بعد تشریف لائے۔ ایک قرن سو سال کی ہوتی تھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں بت پرست آچکی تھی انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی چھوڑنے کو فرمایا ان لوگوں نے ضد وعناد پر کمر باندھ لی اور بت پرستی سے باز نہ آئے اور طرح طرح کی بےتکی باتیں کرتے رہے ان کا واقعہ سورة اعراف (ع 8) میں گزر چکا ہے وہاں ہم نے ان کی قوم کی بہت سی باتیں متعدد آیات قرآنیہ کی روشنی میں نقل کردی ہیں۔ یہاں بعض مضامین زائد ہیں جو وہاں بیان نہیں ہوئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم میں تمہیں واضح ڈرانے والا ہوں تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمہارے بارے میں ایک بڑے تکلیف دینے والے دن کے عذاب کا اندیشہ کرتا ہوں ‘ تم نے اگر توحید اختیار نہ کی اور خالص اللہ کی عبادت نہ کی تو عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے ‘ ان لوگوں نے حق قبول کرنے کی بجائے الٹے جواب دینے شروع کر دئیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے مخاطبین میں بہت کم لوگ مسلمان ہوئے جو لوگ سردار ان قوم تھے انہوں نے جاہلانہ جواب دئیے (کسی قوم کے سردار ہی عموماً شر میں آگے بڑھا کرتے ہیں اور قوم ان کے پیچھے چلتی ہے اگر سردار راہ حق پر آجائیں تو باقی قوم کا حق قبول کرنا آسان ہوجاتا ہے) ان سرداروں نے پہلی بات یہ کہی کہ اے نوح (علیہ السلام) تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو ہم تمہارے اندر کوئی ایسی خصوصیت نہیں دیکھتے جن کی وجہ سے تم نبوت سے سر فراز ہوئے ہو تمہارا نبی ہونا ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور دوسری بات یہ کہی کہ جن لوگوں نے تمہارا اتباع کیا ہے وہ ہم میں سب سے زیادہ بڑھ کر رذیل اور گھٹیا ہیں پھر وہ لوگ جو تمہارے ساتھ لگ گئے ہیں وہ بھی کوئی سوچ سمجھ کر ساتھ نہیں لگے یوں ہی بےسوچے سمجھے ساتھ ہو لئے ہیں ان کا آپ کے ساتھ لگ لینا ہمارے لئے حجت نہیں اور تیسری بات انہوں نے یہ کہی کہ اے نوح تم اور تمہارے متبعین کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل ہو ایسی کوئی بات ہمیں تو نظر نہیں آتی نہ پہلے تمہیں کوئی برتری حاصل تھی اور نہ اب حاصل ہے یہ باتیں کہتے ہوئے انہوں نے علی الاعلان تکذیب کردی اور یوں کہہ دیا (بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ ) (کہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں) ان کی باتیں سن کر حضرت نوح ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم تم ہی بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے حجت پر ہوں اور اس نے اپنی طرف سے رحمت (نبوت) عطا فرما دی اور وہ تم سے پوشیدہ کردی گئی۔ (جسے تم اپنی جاہلانہ سمجھ کی وجہ سے جھٹلا رہے ہو) تو میں کیا کرسکتا ہوں ‘ میرا کام تو پہنچا دینا ‘ بتادینا اور واضح کردینا ہے ‘ میں تمہیں پہنچاتا ہوں اور تم دور بھاگتے ہو ‘ کیا ہم تم پر اس کو چپکا دیں اور تمہارے سر منڈھ دیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے مزید فرمایا کہ اے میری قوم میں جو تمہیں تبلیغ کرتا ہوں اور توحید کی جو دعوت دیتا ہوں اس سے میری کوئی دنیاوی منفعت مقصود نہیں ہے اپنے کسی دنیاوی لالچ کیلئے تمہیں تبلیغ کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا یہ کام میں اللہ کے حکم سے کرتا ہوں مجھے اسی سے ثواب لینا ہے اور میرا اجر اسی کے ذمہ ہے ‘ اگر میں تم سے کچھ مال طلب کرتا تو تم یہ کہہ سکتے تھے کہ اپنی دنیا بنانے اور مال جمع کرنے کے لئے ہمارے پیچھے پڑا ہے ‘ اب جبکہ میں بےلوث ہوں تو تمہیں غور کرنا چاہئے کہ اس کو اتنی محنت کرنے اور مشقت کے کام میں لگنے کی کیا ضرورت ہے ؟
Top