Anwar-ul-Bayan - Hud : 2
اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ١ؕ اِنَّنِیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌۙ
اَلَّا : یہ کہ نہ تَعْبُدُوْٓا : عبادت کرو اِلَّا اللّٰهَ : اللہ کے سوا اِنَّنِيْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْهُ : اس سے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا وَّبَشِيْرٌ : اور خوشخبری دینے والا
حکمت والے باخبر کی طرف سے ہے یہ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو بیشک میں تمہیں اللہ کی طرف سے ڈرانے والا ہوں اور بشارت دینے والا ہوں
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کے حضور توبہ کرنے پر انعام کا وعدہ اور اعراض کرنے والوں کیلئے وعید یہاں سے سورة ہود شروع ہے اس کا بیشتر حصہ (از رکوع 3 تا رکوع 8) متعدد حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی قوموں کے واقعات پر مشتمل ہے یہ قومیں ‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی اور ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ‘ ان کے واقعات میں امت حاضرہ کیلئے بڑی عبرت ہے ‘ ان واقعات کے شروع کرنے سے پہلے توحید کی دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق وایجاد کا اور منکرین کی ہٹ دھرمی کا تذکرہ فرمایا ہے آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور اہل ایمان کو بشارت دی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ یہ کتاب ایسی ہے جس کی آیات محکم کی گئی ہیں پھر ان آیات کو واضح طریقہ پر بیان کردیا گیا ہے اور اس کتاب کی توضیح ایسی ذات پاک کی طرف سے کی گئی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے اس کتاب میں خوب زیادہ واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور ساتھ ہی نبی ﷺ کا کام بھی بتادیا جن پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے یعنی یہ کہ (اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ) (بلاشبہ میں تمہیں اللہ کی طرف سے ڈرانے والا ہوں اور بشارت دینے والا ہوں) مزید فرمایا (وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہِ ) (اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے حضور میں توبہ کرو) یعنی کفر کو چھوڑو اور اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کے حضور میں اعمال صالحہ پیش کرتے رہو اور گناہوں سے بچتے رہو جب کبھی کوئی گناہ ہوجائے تو توبہ کرو پھر توبہ و استغفار کا دنیاوی اور اخروی فائدہ بتایا۔ (یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا) (اللہ تمہیں خوش عیش اچھی زندگی عطا فرمائے گا) یہ خوش عیش زندگی ایک وقت مقررہ تک ہوگی جب تقدیر کے مطابق اجل آجائے گی اور موت واقع ہوگی اس وقت تک یہ عمدہ زندگی ہی رہے گی اور آخرت میں تو اہل ایمان کے لئے خیر ہی خیر ہے۔ پھر فرمایا (وَیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ ) (اور ہر فضیلت والے کو جو زیادہ عمل صالح کرے اس کے اعمال فاضلہ کا بدلہ عطا فرما دے گا) اس میں آخرت کے اجر وثواب کا ذکر ہے۔ ثواب تو تھوڑے سے عمل کا بھی ملے گا لیکن زیادہ عمل والے کا خصوصیت کے ساتھ جو ذکر فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میں نے بہت نیک عمل کر لئے اب آگے کیا نیک عمل کروں جو جس قدر زیادہ عمل کرے گا اسی قدر ثواب پائے گا۔ واضح رہے کہ خوش زندگی کے لئے پیسہ زیادہ ہونا ضروری نہیں۔ اصل راحت دل کی راحت اور دل کا اطمینان ہے وہ اہل ایمان کو ہمیشہ نصیب ہوتا ہے اور یہ بہت بڑی زندگی ہے پھر اس زندگی میں اہل ایمان کو جو تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں ان کا ثواب آخرت میں ملے گا۔ ان تکلیفوں کے پہنچنے سے بھی آیت کے مضمون پر اشکال نہ کیا جائے کیونکہ اہل ایمان ان میں بھی لذت محسوس کرتے ہیں اور ان کا اجر وثواب جو آخرت میں موعود ہے اس کا یقین رکھنے کی وجہ سے روحانی تکلیف ہوتی ہی نہیں البتہ کبھی کبھی جسمانی تکلیف ہوجاتی ہے ‘ نیز یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ یُمَتِّعْکُمْ فرمایا ہے۔ یمتع کُلَّکُمْ نہیں فرمایا اور فِیْ کُلِ الْاَزْمَانِ وَالْاَحْوَال نہیں فرمایا۔ لہٰذا اگر کبھی کبھی کسی کسی کو تکلیف پہنچ جائے تو یہ آیت کے مفہوم کے معارض نہیں۔ برخلاف اس کے آخرت کا ثواب کا ذکر فرماتے ہوئے (یُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ ) فرمایا یعنی ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب ملے گا اس میں لفظ ” کل “ کا اضافہ ہے۔ پھر فرمایا (وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ ) اور اگر تم اس سے اعراض کرو جو میں نے تم کو بتایا نہ توحید کو مانو نہ بشارت کو قبول کرو نہ ڈرانے کا اثر لو تو مجھے اندیشہ ہے کہ تم بڑے دن کے عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (یَوْمٍ کَبِیْرٍ ) (بڑے دن) سے قیامت کا دن مراد ہے اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے دنیاوی عذاب مراد ہے۔
Top