Anwar-ul-Bayan - Hud : 30
وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم مَنْ يَّنْصُرُنِيْ : کون بچائے گا مجھے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر طَرَدْتُّهُمْ : میں ہانک دوں انہیں اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا تم غور نہیں کرتے
اور اے میری قوم اگر میں ان کو ہٹا دوں تو مجھے اللہ کے مؤاخذہ سے کون بچائے گا۔ کیا تم نہیں سمجھتے ہو ؟
مزید فرمایا (وَیَقٰوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ طَرَدْتُّھُمْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ) (اے میری قوم ! میں مومنین کو اپنے پاس سے ہٹا دوں اور دور کردوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہوجائے گا پھر اسکی ناراضگی کو کوئی دفع کرنے والا نہ ہوگا تم اپنی جہالت پر مصر ہو سمجھتے کیوں نہیں) ۔ صاحب روح المعانی (ص 41 ج 2) لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے صاف تو نہ کہا تھا کہ ان لوگوں کو ہٹا دیں لیکن ان کے کلام سے یہ مفہوم ہو رہا تھا کہ ان کو ہٹا دیا جائے تو ہم ایمان لاسکتے ہیں اس لئے ان کی اس بات کی تردید فرما دی۔ فَکَانّ ذالک التماساً منھم بطردھم وتعلیقاً لایمانھم بہ ﷺ بذالک انفۃً من الانتظام معھم فی سلک واحد پس سرداروں کی طرف سے غریبوں کو دور کرنے کا مطالبہ حضور ﷺ پر سرداروں کے ایمان لانے کی شرط کے طور پر تھا اس لئے کہ وہ ان غریبوں کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ (روح المعانی ص 41 ج 12) ان لوگوں نے جو یہ کہا تھا کہ تم ہماری طرح کے آدمی ہو اور یہ کہ ہم تمہارے اندر کوئی اپنے سے زیادہ بات نہیں دیکھتے اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم نبی ہوتے تو تمہارے پاس مال بہت ہونا چاہئے تھا جو دنیا میں برتری کا ذریعہ ہے حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تو یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ‘ دنیا زیادہ ہونا اللہ کے یہاں فضیلت کی کوئی چیز نہیں ہے جس کی بنیاد پر نبوت دی جائے وہ تو اللہ کا فضل اور عطیہ ہے جسے چاے عطا فرما دے نبی کی نبوت ماننے کے لئے جو تم اس کے پاس مال تلاش کرتے ہو اللہ کے قانون میں اس کی کوئی حیثیت نہیں نبوت کا تعلق مالدار ہونے سے نہیں ہے۔
Top