Anwar-ul-Bayan - Hud : 36
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ
وَاُوْحِيَ : اور وحی بھیجی گئی اِلٰي نُوْحٍ : نوح کی طرف اَنَّهٗ : کہ بیشک وہ لَنْ يُّؤْمِنَ : ہرگز ایمان نہ لائے گا مِنْ : سے قَوْمِكَ : تیری قوم اِلَّا : سوائے مَنْ : جو قَدْ اٰمَنَ : ایمان لا چکا فَلَا تَبْتَئِسْ : پس تو غمگین نہ ہو بِمَا : اس پر جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بلاشبہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ اور کوئی شخص ہرگز ایمان نہ لائے گا۔ سو یہ لوگ جو کام کرتے تھے آپ ان کی وجہ سے رنجیدہ نہ ہوں
حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم اور کشتی کی تیاری کے وقت سردار ان قوم کا تمسخر حضرت نوح (علیہ السلام) نے بہت زیادہ محنت کی اور طرح طرح سے اپنی قوم کو سمجھایا توحید کی دعوت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ان کی محنت اور دعوت سے صرف چند افراد مسلمان ہوئے اور قوم کی طرف سے عذاب لانے کی فرمائش ہوتی رہی۔ بالآخر ظالموں پر عذاب آگیا اور ایمان والے محفوظ رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے اب ان کے علاوہ کوئی شخص ایمان نہ لائے گا آپ ان کے حال پر غمگین نہ ہوں کیونکہ توقع کی چیز کے واقع نہ ہونے سے رنج ہوتا ہے۔ جب ان سے ایمان لانے کی توقع ہی اٹھ گئی تو کیوں غم کیا جائے۔ کافروں پر عذاب آنا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے نوح تم ہمارے سامنے ہمارے حکم سے ایک کشتی لو جس میں سوار ہو کر اہل ایمان ڈوبنے سے محفوظ ہوجائیں گے اور کافر سب غرق ہوں گے ‘ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ بھی فرمایا کہ ظالموں (یعنی کافروں) کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کرنا۔ ان کو ڈوبنا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنانے کیلئے تختے لئے ان میں کیلیں ٹھونکتے رہے جیسا کہ سورة القمر میں فرمایا۔ (وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ ) (اور ہم نے نوح کو تختوں اور میخوں والی کشتی پر سوار کردیا) ۔ ادھر تو کشتی تیار ہو رہی تھی اور ادھر ان کی قوم کے سردار اور چودھری گزرتے تھے چونکہ انہیں عذاب آنے کا یقین نہیں تھا اس لئے حضرت نوح (علیہ السلام) پر ہنستے تھے اور ٹھٹھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جی ہاں تم تو اس کشتی میں بیٹھ کر محفوظ ہوجاؤ گے ‘ کبھی کہتے تھے کہ یہ کشتی خشکی میں کیسے چلے گی (کیونکہ وہ خشکی میں بنائی جا رہی تھی) کبھی کہتے تھے کہ اے نوح (علیہ السلام) ابھی تو تم نبی تھے اب تم بڑھئی ہوگئے حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اگر آج تم ہم پر ہنس رہے ہو تو سمجھ لو کہ وہ دن بھی آنے والا ہے کہ ہم تم پر ہنسیں گے جیسا کہ آج تم ہم پر ہنس رہے ہو۔ عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔
Top