Anwar-ul-Bayan - Hud : 49
تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ١ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا١ۛؕ فَاصْبِرْ١ۛؕ اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
تِلْكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ : غیب کی خبریں نُوْحِيْهَآ : ہم وحی کرتے ہیں اسے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مَا : نہ كُنْتَ تَعْلَمُهَآ : تم ان کو جانتے تھے اَنْتَ : تم وَلَا : اور نہ قَوْمُكَ : تمہاری قوم مِنْ : سے قَبْلِ ھٰذَا : اس سے پہلے فَاصْبِرْ : پس صبر کریں اِنَّ : بیشک الْعَاقِبَةَ : اچھا انجام لِلْمُتَّقِيْنَ : پر وہیزگاروں کے لیے
یہ قصہ غیب کی خبروں سے ہے ہم آپ کی طرف وحی بھیجتے ہیں۔ اس سے پہلے آپ ان کو نہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم مانتی تھی۔ سو آپ صبر کیجئے۔ بلاشبہ انجام کار متقیوں ہی کیلئے ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ عبرت اور نصیحت ہے اور خاتم الانبیاء ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی غرقابی اور ان کے ساتھ اہل ایمان کی نجات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ غیب کی خبریں ہیں اے محمد ﷺ آپ اور آپ کی قوم ان خبروں سے واقف نہیں تھے ان خبروں کا آپ کو علم ہونا جبکہ آپ نے کسی سے پڑھا بھی نہیں ‘ پرانی قوموں کے واقعات کسی نے بتائے بھی نہیں یہ سمجھ دار انسان کے لئے اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیج کر آپ کو مطلع فرمایا ہے۔ پھر حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ اہل ایمان کی نجات پانے سے آپ کو تسلی ہونی چاہئے آپ صبر کریں جیسے انبیاء سابقین ( علیہ السلام) صبر کرتے رہے ہیں اور انجام کار یہی ہوا کہ جو لوگ متقی تھے یعنی کفر اور شرک سے بچتے تھے انہوں نے نجات پائی اور ان کے دشمن ہلاک ہوئے اسی طرح آپ کے لیے بھی حسن عاقبت ہے ‘ اور آپ کے اصحاب کے لئے بھی۔ اہل مکہ اور دوسرے لوگ جو آپ کے مخالف ہیں ان کو بھی عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ چند دن کا کھانا پینا اور عیش کرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ انجام اچھا ہونا چاہئے۔ جو متقین ہی کا حصہ ہے۔ فوائد ضروریہ (1) حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو طوفان آیا تھا اس کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ طوفان نے ساری زمین کو گھیر لیا تھا جمہورکا یہی قول ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو دعا کی تھی۔ (رَبِّ لَا تَذَرْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا) (اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک بھی باشندہ مت چھوڑ) اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری زمین کو طوفان نے گھیر لیا تھا لیکن بعض علماء کا کہنا یہ ہے ‘ کہ طوفان صرف اس علاقہ میں آیا تھا جہاں تک حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ یہ ایک شاذ قول ہے۔ جو جمہور کے خلاف ہے جن علماء نے اسے اختیار کیا ہے ان کے نزدیک سورة نوح کی آیت میں جو الارض آیا اور جو سورة قمر میں (وَفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا) فرمایا ہے ان دونوں میں الف لام عہد کے لیے ہے یہ احتمال بعید نہیں ہے لہٰذا یقین کے ساتھ ان کے قول کی تغلیط بھی نہیں کی جاسکتی۔ چونکہ اس کی تحقیق سے کوئی شرعی حکم متعلق نہیں لہٰذا کاوش میں پڑنے کی بھی ضرورت نہیں۔ قصہ بیان کرنے کا مقصد ہر طرح حاصل ہے یعنی نصیحت اور عبرت وموعظت ہر طرح حاصل ہے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ارض معمورہ ہی تھوڑی سی تھی جتنی زمین پر انسانوں کی آبادی تھی اتنے ہی حصہ پر طوفان آیا اور چونکہ تھوڑے سے اہل ایمان کے علاوہ سب ہی بنی آدم ہلاک کر دئیے گئے تھے اس لیے اس کو عالمی طوفان کہنا بھی صحیح ہے ‘ منکرین کو ہلاک فرمانا تھا ‘ وہ اتنی زمین پر طوفان آنے سے ہلاک ہوگئے جتنی زمین پر آباد تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ (2) حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا (اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ) (کہ وہ تمہارے اہل میں سے نہیں) اس سے معلوم ہوا کہ مومن اور کافر میں کوئی رشتہ نہیں اگر نسبی اعتبار سے قرابت کا رشتہ ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، کسی نبی یا ولی کا بیٹا ہو اور اس کے عقائد کفریہ ہوں تو اس کا رشتہ اسے کوئی کام نہیں دے سکتا اور اس کے رشتہ کا اعتبار بھی نہیں حضرات مہاجرین کرام کا یہی جذبہ تھا کہ غزوہ بدر وغیرہ میں خونی رشتے کے لوگ سامنے آئے چونکہ وہ کافر تھے اس لئے انہیں قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا جیسا کہ کافروں نے بھی ان رشتہ داروں پر تلوار کشی کی جو اہل ایمان میں سے تھے بلکہ غزوہ بدر میں تو یہ ہوا کہ بعض انصار مقابلہ کے لئے نکلے تو مشرکین مکہ میں سے بعض افراد نے کہا کہ لا نرید ھولاء ولکن نبارز بنی عمنا من بنی عبد المطلب (کہ ہم ان کے مقابلہ کا ارادہ نہیں رکھتے ہم تو بنی عبد المطلب سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے چچا کے بیٹے ہیں) اس پر حضرت علی اور حضرت حمزہ اور حضرت عبیدۃ بن الحارث ؓ نکلے جن میں سے حضرت علی ؓ نے ولید بن عتبہ کو اور حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ کو قتل کردیا اور حضرت عبیدۃ بن الحارث ؓ شہید ہوگئے (بدر میں زخمی ہوئے تھے پھر مدینہ منورہ واپس ہوتے ہوئے راستہ میں وفات ہوگئی) لیکن ان کے شہید کرنے والے کو (جس کا نام عتبہ تھا) بعد میں حضرت علی اور حضرت حمزہ ؓ نے قتل کردیا۔ (البدایہ) جب کافروں کے جذبۂ عداوت کا یہ حال ہے کہ قتل کرنے کے لیے اپنے عزیزوں کو خصوصیت کے ساتھ طلب کرتے ہیں تو اہل ایمان کیوں اہل کفر سے دشمنی نہ رکھیں اور کافروں کو اپنا کیوں سمجھیں۔ کوئی کافر اپنا نہیں خواہ کیسا ہی رشتہ دار ہو۔ (اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ) میں اس کو واشگاف الفاظ میں واضح فرمایا ہے۔ حضرت سعدی ؓ نے کیا خوب فرمایا۔ فرماتے ہیں ؂ پسر نوح با بداں بنشت سگ اصحاب کہف روزے چند خاندان نبوتش گم شد پئے نیکاں گرفت مردم شد (3) جودی پہاڑ کہاں ہے جس پر کشتی ٹھہری تھی ‘ اس کے بارے میں معجم البلدان میں لکھا ہے کہ یہ ایک پہاڑ ہے جو دجلہ سے مشرقی جانب ہے جزیرہ ابن عمر پر محیط ہے اور یہ شہر موصل کے مضافات میں ہے (جو عراق کے شہروں میں سے ہے) یہ جزیرہ ابن عمر برقعبدی کی طرف منسوب ہے۔ محقق ابن جزری امام التجوید والقرأۃ کی نسبت بھی اسی کی طرف ہے۔ (4) آیت کریمہ (وَقِیْلَ یٰٓا اَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ ) میں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہت سی وجوہ اعجاز ہیں جن کو علامہ سکا کی (a) نے جمع کیا ہے پھر حافظ شمس الدین ابن الجزری صاحب مقدمہ الجزریۃ نے کفایۃ الالمعی فی اٰیَۃِ یَا اَرْضُ ابْلَعِیْ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں علامہ سکا کی کی بیان کردہ وجوہ اعجاز پر اضافہ کیا۔ (ذکرہ حاجی خلیفہ فی کشف الظنون)
Top