Anwar-ul-Bayan - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کے الفاظ بولے۔ ابراہیم نے سلام کا جواب دیا پھر دیر نہ لگائی کہ ایک تلا ہوا بچھڑا لے آئے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں فرشتوں کا حاضر ہونا اور فرشتوں کا بیٹے اور پوتے کی بشارت دینا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن ایران اور عراق کے درمیان تھا ان کی قوم بت پرست تھی ‘ نمرود کی حکومت تھی وہاں انہوں نے توحید کی دعوت دی ‘ قوم نے مخالفت کی دشمنی پر اتر آئے حتیٰ کہ آپ کے باپ نے بھی یوں کہہ دیا۔ (لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا) (اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار دوں گا اور تو مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ دے) ان لوگوں نے آگ میں ڈال دیا اللہ نے آگ ان پر ٹھنڈی کردی اور وہ اس میں سے صحیح سلامت باہر نکل آئے اور پھر اپنا وطن چھوڑ کر ملک شام کے علاقہ فلسطین میں آباد ہوگئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) ان کے بھتیجے تھے وہ بھی ساتھ آگئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی تھی نیز حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے نوازا تھا۔ شام ہی کے علاقہ میں حضرت لوط ( علیہ السلام) کی قوم آباد ہوئی تھی جہاں آج کل بحرمیت ہے ان کی قوم نے بڑی سرکشی کی اور بیہودگی اور بد فعلی اور بدکاری کو اپنا مقصد زندگی بنا رکھا تھا جب ان کی قوم پر عذاب بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا تو فرشتے اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے جو انسانی صورتوں میں تھے انھوں نے آکر سلام کیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا اور جلدی سے اندر تشریف لے گئے اور بھنا ہوا بچھڑے کا گوشت ان کے لیے مہمانی کے طور پر لے آئے۔ یہ بچھڑا فربہ اور موٹا تازہ تھا جیسا کہ سورة الذریات میں فرمایا ہے (بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ ) حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مہمانی کی (اول الناس ضیف الضیف کما فی المشکوٰۃ ص 385) آنے والے مہمان فرشتے تھے وہ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ گوشت سامنے رکھا ہوا ہے لیکن ان کے ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ ماجرا دیکھا تو خوف زدہ ہوگئے کہ یہ کون ہیں عجیب سے لوگ معلوم ہوتے ہیں کھانا سامنے رکھا ہے کھاتے نہیں ہیں ‘ نہ صرف دل سے خوف زدہ ہوئے بلکہ زبان سے بھی کہہ دیا اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ (کہ ہمیں تم سے ڈر لگ رہا ہے) فرشتوں نے کہا کہ ڈرو نہیں ہم تمہیں ایسے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو صاحب علم ہوگا ‘ بیٹا ہونے کی بشارت دی اور اس کے ساتھ ہی پوتا ہونے کی بھی بشارت دے دی یہ بیٹا اسحاق اور پوتا یعقوب ( علیہ السلام) تھے بیٹے کی بشارت سنی تو کہنے لگے۔ (اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰی اَنْ مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ ) (کیا تم مجھے اس حالت میں بشارت دے رہے ہو جبکہ مجھے بڑھاپا آچکا ہے سو کس چیز کی بشارت دے رہے ہو) (قَالُوْا بَشَّرْنٰکَ بالْحَقِّ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقَانِطِیْنَ ) (انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بشارت دی ہے سو تم ناامید ہوجانے والوں میں سے مت بنو) نیز ان فرشتوں نے یہ بھی کہا کہ ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں (تاکہ ان پر عذاب لے کر آئیں) وہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اہلیہ بھی کھڑی تھیں انہیں ہنسی آگئی ‘ ہنسی کس بات پر آئی اس کے بارے میں صاحب معالم التنزیل نے کئی قول نقل کئے ہیں اس میں سے ایک قول یہ ہے کہ چونکہ فرشتوں نے یوں بھی کہہ دیا تھا کہ ہم قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف بھیجے گئے ہیں اس لئے مومنہ خاتون کو ان کی غفلت پر ہنسی آگئی کہ دیکھو وہ لوگ کیسے غافل ہیں عذاب قریب آچکا اور وہ اپنی مستیوں میں لگے ہوئے ہیں ‘ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کو بھی بشارت دی اور کہا کہ تم سے لڑکا پیدا ہوگا جس کا نام اسحاق (علیہ السلام) ہوگا اور پھر اس لڑکے کا لڑکا ہوگا جس کا نام یعقوب (علیہ السلام) ہوگا وہ کہنے لگیں ہائے خاک پڑے (عورتیں تعجب کے وقت یہ لفظ بولا کرتی ہیں) کیا میں اب جنوں گی جب بڑھیا ہوچکی ہوں اور نہ صرف یہ کہ میں بڑھیا ہوں میرے یہ شوہر جو بیٹھے ہیں یہ بھی بوڑھے ہیں ‘ بوڑھے مرد بوڑھی عورت سے اولاد پیدا ہو یہ تو عجیب بات ہے ‘ فرشتوں نے اللہ کی رحمت اور اس کی برکتوں کی دعا دی اور کہا کہ (رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرََکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ ) (کہ اے ابراہیم کے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں) (اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام تعریفوں کا مستحق ہے اور بزرگ ہے) ۔ اس کے بعد اسی بیوی سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام اسحاق (علیہ السلام) رکھا گیا اور بعد میں اس صاحبزادہ کا لڑکا پیدا ہوا ‘ جس کا نام یعقوب ( علیہ السلام) رکھا گیا۔ اس بیوی کا نام سارہ تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا کی لڑکی تھی اور ہجرت کر کے ہمراہ آئی تھی۔ دوسری بیوی کا نام ہاجرہ تھا اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ ہاجرہ اور اسماعیل ( علیہ السلام) وہی دونوں ماں بیٹے ہیں جنہیں ابراہیم (علیہ السلام) مکہ معظمہ کے چٹیل میدان میں چھوڑ گئے تھے جس کا واقعہ سورة بقرہ کی آیت (اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ ) کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ (انوار البیان جلد اول) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خوف جاتا رہا تو اب حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں اللہ تعالیٰ شانہ سے یہ دعا مانگنے لگے کہ ان کو ہلاک نہ کیا جائے کیونکہ ان کے اندر لوط (علیہ السلام) موجود ہیں ‘ اس کو یُجَادِلُنَا سے تعبیر فرمایا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ جدال فرشتوں سے تھا کیونکہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے اس لئے یوں فرمایا کہ وہ ہم سے جدال کرنے لگے ‘ سورة عنکبوت میں ہے کہ جب فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں تو اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا (اِنَّ فِیْھَا لُوْطًا) (اس بستی میں لوط موجود ہیں) اس پر فرشتوں نے جواب دیا (نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْھَا) ہمیں ان سب کا خوب علم ہے جو اس بستی میں ہیں۔ (لَنُنَجِّیَنَّہٗ وَاَھْلَہٗ اِلَّا امْرَاَتَہٗ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ) (ہم لوط اور اس کے گھر والوں کو نجات دے دیں گے بجز اس کی بیوی کے کہ وہ عذاب میں رہ جانے والوں میں ہوگی) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خواہش تھی کہ عذاب نہ آئے انہوں نے عذاب رکوانے کے لیے وہاں لوط (علیہ السلام) کے موجود ہونے کو رحم لانے کے لیے پیش کیا ان کے اسی جذبہ کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَحِلیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ) (کہ بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) برد بار رحم دل تھے اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے) اللہ کی طرف سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کو ہلاک کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور اسی لئے فرشتے آئے تھے انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ اس بات کو جانے دو تمہارے رب کا فیصلہ ہوچکا ہے ان پر عذاب ضرور آئے گا جو ہٹنے اور واپس ہونے والا نہیں۔
Top