Anwar-ul-Bayan - Hud : 84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ
وَ : اور اِلٰي مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا وَ : اور لَا تَنْقُصُوا : نہ کمی کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہوں بِخَيْرٍ : آسودہ حال وَّاِنِّىْٓ : اور بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : ایک گھیر لینے والا دن
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا انہوں نے کہا کہ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ آسودہ حال ہو بیشک میں تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا اندیشہ کرتا ہوں جو گھیر لینے والا ہوگا
مدین والوں کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کا تبلیغ فرمانا اور ان لوگوں کا الٹے جواب دینا اور استہزاء کرنا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا تھا اصحاب ایکہ کا ذکر سورة الشعرا (ع 10) میں ہے اور سورة اعراف (ع 11) میں اور یہاں سورة ہود میں اور سورة عنکبوت (ع 4) میں اصحاب مدین کا ذکر ہے۔ یہ لوگ بھی مشرک تھے غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور لوگوں کو جو مال بیچتے تھے تو ناپ تول میں کمی کرتے تھے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو تبلیغ کی اور ان سے فرمایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو ‘ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ‘ نیز یہ بھی فرمایا کہ لوگوں کو ان کے مال پورے پورے انصاف کے ساتھ دو ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ اللہ کا دیا ہوا جو حلال مال بچ جائے تمہارے لئے بہتر ہے جو تم ناپ تول میں کٹوتی کرتے ہو۔ حلال میں برکت ہوتی ہے اگرچہ کم ہو اور حرام اگرچہ زیادہ ہو بےبرکت ہوتا ہے اور آخرت میں جہنم میں لے جانے والا ہے لہٰذا تم حلال پر اکتفا کرو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں تمہارا پہرہ دار نہیں ہوں کہ تم سے جبراً وہ عمل کروا کر ہی چھوڑوں جس کا میں حکم دے رہا ہوں۔ وہ لوگ بیہودگی پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ واہ میاں تم بڑے نمازی آئے کیا تمہاری نماز یہی بتاتی ہے کہ ہم ان چیزوں کی عبادت چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے ہوئے آئے ہیں ‘ نماز کا ذکر انہوں نے استہزاء اور تمسخر کے طور پر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تمہاری نماز عجیب ہے ‘ ہم جو سامان بیچتے ہیں اس پر پابندی لگاتی ہے ہمارا مال ہے ہم اس میں جو چاہیں تصرف کریں۔ یہی بات اس زمانہ کے لوگ بھی کہہ دیتے ہیں جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ سود نہ لو اور سود نہ دو ۔ رشوت کا لین دین نہ کرو بیمہ کمپنی میں رقم جمع نہ کرو۔ گناہ کی چیزیں نہ خریدو اور نہ انہیں فروخت کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ مولویوں کا عجیب ڈھنگ ہے ہر شخص کا اپنا مال ہے جیسے چاہے تصرف کرے مولویوں کو لوگوں کے معاملات میں بولنے اور زیادہ مال کمانے کے سلسلہ میں روڑے اٹکانے کی کیا ضرورت ہے ‘ یہ لوگ اول تو یہ بات غلط کہتے ہیں کہ مال ہمارا ہے ‘ تمہارا مال کہاں سے ہوگا تم خود اپنے نہیں ہو تم اور تمہارے اموال کو پیدا فرمایا اسے اختیار ہے کہ جو چاہے احکام نافذ فرمائے اور جس چیز سے چاہے منع کرے اور جس چیز کی چاہے اجازت دے اور جس عمل سے چاہے روکے۔ مولوی اپنے پاس سے کچھ کہیں تو قصور وار ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔
Top