Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 13
وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ١ۚ وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِ١ۚ وَ هُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِؕ
وَيُسَبِّحُ : اور پاکیزگی بیان کرتی ہے الرَّعْدُ : گرج بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے مِنْ : سے خِيْفَتِهٖ : اس کے ڈر سے وَيُرْسِلُ : اور وہ بھیجتا ہے الصَّوَاعِقَ : گرجنے والی بجلیاں فَيُصِيْبُ : پھر گراتا ہے بِهَا : اسے مَنْ : جس يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَهُمْ : اور وہ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں وَهُوَ : اور وہ شَدِيْدُ : سخت الْمِحَالِ : پکڑ
اور رعد اس کی تسبیح کے ساتھ اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اور فرشتے بھی اس کے خوف سے۔ اور بجلیاں بھیجتا ہے پھر جسے چاہے پہنچا دیتا ہے اور حال یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور وہ سخت قوت والا ہے۔
رعد کیا ہے ؟ پھر فرمایا کہ رعد اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے اور اس کی تعریف بیان کرتا ہے اور دوسرے فرشتے بھی اللہ کے خوف سے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ‘ سنن ترمذی (تفسیر سورة الرعد) میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی حضور اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے ابو القاسم ہمیں یہ بتائیے کہ رعد کیا ہے آپ نے فرمایا کہ رعد فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر کیا ہوا ہے اس کے پاس پھاڑنے والی چیزیں ہیں جو آگ کی بنی ہوئی ہیں اور ان کے ذریعے بادلوں کو ہانکتا ہے اللہ جہاں چاہتا ہے وہاں لے جاتا ہے ‘ یہودیوں نے عرض کیا کہ یہ آواز کیا ہے جو سننے میں آتی ہے ‘ آپ نے فرمایا کہ بادل کو جھڑکنے کی آواز ہے ‘ رعد انہیں جھڑکتا ہے یہاں تک کہ بادلوں کو وہاں لے جاتا ہے جہاں لے جانے کا حکم ہوتا ہے۔ (قال الترمذی ھذا حدیث حسن صحیح غریب) ۔ پھر فرمایا (وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِھَا مَنْ یَّشَآءُ ) (اور اللہ تعالیٰ بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بجلی گرا دیتا ہے) (وَھُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰہِ ) اور حال یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہوتے ہیں۔ (وَھُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِ ) (اور وہ سخت قوت والا ہے) ۔ آیت وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ کا سبب نزول : حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی ؓ کو رؤسائے جاہلیت میں سے ایک شخص کی طرف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور الوہیت کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ‘ اس نے کہا کہ تمہارا رب کون ہے ‘ جس کے ماننے کی دعوت دیتے ہو وہ لوہے کا ہے یا تانبے کا ‘ چاندی کا ہے یا سونے کا ‘ وہ صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور آپ کو اس کی باتوں کی خبر دی آپ نے دوبارہ انہیں بھیجا اس شخص نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی ‘ یہ صحابی ؓ پھر حاضر خدمت ہوئے اور اس کی بات نقل کردی آپ نے تیسری بار ان کو پھر بھیجا اس شخص نے پھر وہی بات کہی اس مرتبہ جب یہ صحابی ؓ واپس ہو کر حاضر ہوئے اور آپ کو اس کے سوال سے باخبر کیا تو آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بجلی اس پر نازل فرما دی جس کی وجہ سے وہ جل گیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت شریفہ (وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ ) (آخر تک) نازل فرمائی اور ایک روایت میں یوں ہے کہ تیسری بار جب وہ شخص بات کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے سر پر ایک بادل بھیج دیا وہ بادل گرجا اور اس میں سے ایک بجلی گری جو اس سرکش کافر کی کھوپڑی کو لے کر چلی گئی (مجمع الزوائد ص 42 ج 7 عن ابی یعلی والبزار والطبرانی فی الاوسط ورجال البزار رجال الصحیح غیر دیلم بن غزوان وھو ثقۃ) ۔
Top