Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 15
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ
وَاسْتَفْتَحُوْا : اور انہوں نے فتح مانگی وَخَابَ : اور نامراد ہوا كُلُّ : ہر جَبَّارٍ : سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
اور کافروں نے فیصلہ چاہا اور ہر سرکش ضدی نامراد ہوا،
پھر فرمایا (وَاسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ) (الآیات الثلاث) اس میں حضرات مفسرین نے دو وجوہ لکھی ہیں اول یہ کہ واسْتَفْتَحُوْا کی ضمیر مرفوع مستتر حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی اور فیصلہ چاہا، یہ معنی لینا بھی سیاق کلام کے موافق ہے اور اس کی نظیر حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی دعا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی جب ان کی قوم نے ان سے یوں کہا تھا کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ ورنہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ اس پر ان حضرات نے جو جواب دیا تھا وہ سورة اعراف میں مذکور ہے، ساتھ ہی وہاں ان کی یہ دعا بھی نقل فرمائی ہے۔ (رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ) (اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دیجیے اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں) اس صورت میں سورة ابراہیم کی آیت بالا کا یہ مطلب ہوا کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور ان کے مقابلہ میں جو سرکش ضدی تھے وہ نامراد ہوئے برباد ہوئے دنیا و آخرت دونوں جگہ کے عذاب میں مبتلا ہوئے اس کے بعد کچھ آخرت کے عذاب کی تفصیل مذکور ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ (وَاسْتَفْتَحُوْا) کی ضمیر امتوں کی طرف راجع ہو اور اس صورت میں مطلب ہوگا کہ جب حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی قوموں کو سمجھاتے رہے اور وہ لوگ انکار پر اصرار کرتے رہے تو اسی طرح شدہ شدہ وہ وقت آگیا کہ ان کی قوموں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں عرض کیا کہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ ہوجانا چاہیے اور اس بات کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ جو ہمیں وعید سناتے ہیں کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو ہلاک ہوجاؤ گے اور تم پر عذاب آجائے گا تو ہمارے انکار کرنے پر اگر عذاب آنا ہے تو آجائے، یہ ایسا ہے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا (فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) اور جیسے شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا (فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ) اور جیسا کہ قریش نے کہا (عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ) اور یہ بھی کہا (اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) ان لوگوں کا اس طرح کی باتیں کرنا اور عذاب لانے کی درخواست کرنا استہزاء اور تمسخر کے طریقہ پر تھا چونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تھے اس لیے بطور تمسخر ایسی باتیں کرتے تھے لیکن عذاب کو دعوت دینا ان کے لیے وبال بن گیا اور واقعی عذاب آگیا، جب عذاب آیا تو سرکش اور ضدی عذاب میں مبتلا ہوگئے اور دنیا سے نامراد ہو کر چلے گئے، وہ سمجھتے تھے کہ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کی بات نہ ماننے میں کامیابی ہے حالانکہ ان کی بات ماننے میں کامیابی تھی اور نہ ماننے میں نامرادی تھی، یہ تو ان کو دنیا میں سزا ملی کہ عذاب میں گرفتار ہوئے اور جس عذاب کو مذاق میں طلب کرتے تھے اس نے سچ مچ آگھیرا اور آخرت کا عذاب اس کے سوا ہوگا وہاں دوزخ میں داخل ہونا پڑے گا جہاں بہت سے عذابوں کے علاوہ کھانے پینے کا بھی عذاب ہوگا جب پانی پینے کے لیے طلب کریں گے تو وہ پانی سراپا پیپ ہوگا پینے کو تو دل نہ چاہے گا لیکن مجبوری میں پینا پڑے گا یہ پیپ کا پانی خود دوزخیوں کے جسموں سے نکل کر بہتا ہوگا کافر اسے مشکل سے گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا اور گلے سے اتار نہ سکے گا لیکن پھر بھی پئے گا اور پینا پڑے گا۔
Top