Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی وہ مثال کلمہ طیبہ کی ہے جو شجرہ طیبہ کی طرح سے ہے اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخیں بلندی میں ہیں
کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال یہ تین آیات ہیں جن میں پہلی آیت میں کلمہ طیبہ کو شجرہ طیبہ سے تشبیہ دی ہے اور دوسری آیت میں کلمہ خبیثہ کو شجرہ خبیثہ سے تشبیہ دی ہے حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ کلمہ طیبہ سے کلمہ ایمان لا الٰہ الا اللہ مراد ہے اور کلمہ خبیثہ سے کلمہ کفر مراد ہے، کلمہ طیبہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایسے پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ خوب مضبوطی کے ساتھ زمین میں جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں اونچائی میں اوپر جا رہی ہوں اور وہ ہمیشہ پھل دیتا ہو جب بھی اس کی فصل آئے تو فصل ضائع نہ ہو۔ سنن ترمذی (تفسیر سورة ابراہیم) میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ شجرہ طیبہ (پاکیزہ درخت) سے کھجور کا درخت مراد ہے جس سے کلمہ طیبہ کو تشبیہ دی ہے لا الٰہ الا اللہ کی جڑ (یعنی مضبوط اعتقاد) مومن کے قلب میں استحکام اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اس کی شاخیں یعنی اعمال صالحہ جو بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوتے ہیں وہ آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں اور ان پر رضائے الٰہی کے ثمرات مرتب ہوتے ہیں کما فی سورة فاطر (اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ ) کھجور کا درخت زمین میں مضبوطی کے ساتھ جما ہوا ہوتا ہے اپنی جڑوں میں استحکام اور پھلوں میں عمدگی اور شاخوں میں بلندی لیے ہوئے ہوتا ہے اس کے پھل بھی ہر فصل میں آتے رہتے ہیں اور لوگ اس سے برابر منتفع ہوتے رہتے ہیں اس کے پھل میں غذائیت بھی ہے اور قوت بھی ہے اور دیکھنے میں بھی نظروں میں خوب بھاتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال دینے کے بعد کلمہ خبیثہ کی مثال دی اور فرمایا کہ کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ کفر ایسا ہے جیسے کوئی خبیث درخت ہو جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے اور اسے کوئی قرار اور ثبات نہ ہو سنن ترمذی کی مذکورہ بالا روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شجرہ خبیثہ سے حنظل مراد ہے جو بہت زیادہ کڑوا ہوتا ہے اس کا مزہ بھی برا ہے اور اس کی بو بھی بدترین ہے اور اس کے کھانے سے بہت سی مضرتیں پیدا ہوتی ہیں اس کا جماؤ بھی زمین میں نہیں ہوتا زمین سے یوں ہی ذرا تھوڑا سا تعلق ہوتا ہے ہلکے سے ہاتھ کے اشارے سے اکھڑ آتا ہے، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ چونکہ پہلی مثال میں شجرہ طیبہ فرمایا ہے اس لیے حنظل کو مشاکلۃً شجرہ خبیثہ فرما دیا ورنہ حنظل کا درخت نہیں ہوتا بلکہ بیل ہوتی ہے حنظل کی نہ جڑ مضبوط ہے نہ مزا اچھا ہے اور بدبو سے بھرا ہوا ہے اور نہ اس کی شاخیں اونچی ہیں اور مزید یہ کہ بدبودار ہوتا ہے، کفر کے کلمات کا یہی حال ہے حق کے سامنے ان کا کوئی جماؤ نہیں کافر کو اس سے نقصان ہی نقصان ہے اور اس کے اعمال پر بھی رضائے الٰہی مرتب نہیں ہوتی اور چونکہ کافر کے اعمال کے قبول ہونے کا احتمال ہی نہیں اس لیے مشبہ بہ یعنی حنظل کے تذکرہ میں شاخوں کا ذکر ہی نہیں فرمایا۔
Top