Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 34
وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ١ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠   ۧ
وَاٰتٰىكُمْ : اور اس نے تمہیں دی مِّنْ : سے كُلِّ : ہر چیز مَا : جو سَاَلْتُمُوْهُ : تم نے اس سے مانگی وَاِنْ : اور اگر تَعُدُّوْا : گننے لگو تم نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ لَا تُحْصُوْهَا : اسے شمار میں نہ لا سکو گے اِنَّ : بیشک الْاِنْسَانَ : انسان لَظَلُوْمٌ : بیشک بڑا ظالم كَفَّارٌ : ناشکرا
اور تم نے اس سے جو کچھ مانگا تم کو اس سب میں سے عطا فرما دیا اور اگر تم اللہ کی نعمت کو شمار کرو تو شمار نہیں کرسکتے بلاشبہ انسان بڑا بےانصاف ہے بڑا ہی ناشکرا ہے۔
مذکورہ بالا نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد اجمالاً دوسری نعمتوں کا بھی تذکرہ فرمایا اور فرمایا (وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ) (اور جو کچھ تم نے اللہ سے مانگا اس سب میں سے تمہیں عطا فرما دیا) (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا) (اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرو تو شمار نہیں کرسکتے) اللہ تعالیٰ شانہٗ کی بیشمار نعمتیں ہیں بہت سی نعمتوں کا تو انسان کو علم بھی نہیں۔ جن سے منتفع ہوتا ہے سر سے پاؤں تک انسان کے جسم میں کیا کیا ہے کتنی رگیں ہیں کتنے پٹھے ہیں ان سب کا پتہ عامۃ الناس کو تو ہے ہی نہیں جن لوگوں نے آلات کے ذریعے ریسرچ کی ہے وہ بھی اب تک پوری طرح جسم انسانی کی مشینری کو سمجھ نہیں پائے اور جس کسی نے پورا سمجھنے کا دعویٰ کیا ہے اس کا دعویٰ غلط نکلا کیونکہ بعد میں اور بہت سی چیزیں ظاہر ہوگئیں، یہ تو انسان کے اپنے اندر کی نعمتوں کا اجمالی تذکرہ ہوا ان کے علاوہ جو اور نعمتیں اور کھانے پینے کی اور پہننے کی اشیاء اور سفر حضر میں کام آنے والی چیزیں ہیں سمندری مخلوقات ہیں جن سے انسان منتفع ہوتا ہے اشجار ہیں انہار ہیں، جبال ہیں، احجار ہیں، مویشی ہیں، انعام ہیں اور کثیر تعداد میں اجناس اور اصناف ہیں ان سب کا شمار انسان کے بس سے باہر ہے نیز اپنے سانسوں کے گننے تک پر قادر نہیں ہے جو اس کی حیات کا ذریعہ ہیں اور ذرا انسان اپنے جسم کے مسامات کو گن کر دکھا دے جن سے پسینہ نکلتا ہے۔ ایک بات ذہن میں آئی اور وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے سر کے بال بہت زیادہ محبوب ہیں ان بالوں سے حسن و جمال ہے کوئی شخص اپنے سارے بال گن کر دکھا دے گنتے گنتے تھک جائے گا اور گن نہ سکے گا پہلے ان بالوں سے فارغ ہو تو دوسری نعمتوں کے گننے میں لگے ولقد صدق للّٰہ (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی زیادہ نعمتیں عطا فرمائیں جن کا شمار کرنا اس کے بس سے باہر ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ شانہ کا شکر گزار بندہ بننے کے بجائے ظلوم اور کفار بن گیا جسے آیت کے ختم پر بیان فرمایا (اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ) ظلوم کا معنی ہے بہت زیادہ ظلم کرنے والا اور کفار کا معنی ہے بہت زیادہ ناشکرا، انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو استعمال کرتا ہے اور نعمتوں کو اللہ کی نافرمانی میں بھی خرچ کرتا ہے۔ یہ سب اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، پھر نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا یہ بھی ظلم ہے، نعمتوں کو استعمال کرتا ہے اور انکار بھی کرتا ہے کہہ دیتا ہے کہ مجھے اللہ نے کیا دیا ہے کبھی کہتا ہے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی محنت اور اپنی سمجھ سے حاصل کیا ہے نیز اپنے خالق اور مالک کا فرمانبردار نہیں بنتا کفر میں معصیتوں میں جان اور مال خرچ کرتا ہے، یہ سب ظلم ہے اکثر افراد ناشکرے ہی ہیں سورة سبا میں فرمایا (وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ ) (اور میرے بندوں میں سے شکر گزار کم ہیں)
Top