Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 40
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ۖۗ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ
رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْنِيْ : مجھے بنا تو مُقِيْمَ : قائم کرنے والا الصَّلٰوةِ : نماز وَ : اور مِنْ : سے۔ کو ذُرِّيَّتِيْ : میری اولاد رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَتَقَبَّلْ : اور قبول فرما دُعَآءِ : دعا
اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھیے اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرمائیے
پھر یوں دعا کی (رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ ) (اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری ذریت میں سے بھی نماز قائم کرنے والے بنائیے اے ہمارے رب دعا کو قبول فرمائیے) اس کے بعد اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے اور تمام مومنین کے لیے دعا کی کہ جس دن حساب قائم ہو اس دن ان سب کی مغفرت فرما۔ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ تو کافر مشرک تھا اس کے لیے کیسے مغفرت کی دعا کی جبکہ کافروں کی بخشش نہ ہوگی اس کا جواب سورة توبہ کی آیت (وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ) کی تفسیر میں گزر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے وعدہ کرلیا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے استغفار کروں گا انہیں اپنے والد کے مسلمان ہونے کی امید تھی پھر جب انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ اس کی موت کفر پر ہوگی تو اس سے بیزار ہوگئے یہ دعا بیزار ہونے سے پہلے کی ہے جب تک والد کی موت علی الکفر کا علم نہ ہوا تھا اور مسلمان ہونے کی امید بندھی ہوئی تھی اس وقت تک بشرط ہدایت باپ کی مغفرت کی دعا کی بعد میں چھوڑ دی۔ آیت بالا میں والدہ کے لیے بھی دعائے مغفرت کرنے کا تذکرہ ہے اگر وہ ایمان لے آئی تھی تب تو کوئی اشکال نہیں اور اگر وہ ایمان نہیں لائی تھی تو اس کے بارے میں وہی بات کہی جائے گی جو والد کے بارے میں عرض کی گئی۔
Top