Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اللہ کو ان کاموں سے بیخبر مت سمجھئے جو ظالم لوگ کرتے ہیں بات یہی ہے کہ وہ انہیں ایسے دن کے لیے مہلت دیتا ہے جس میں آنکھیں اوپر کو اٹھی رہ جائیں گی
قیامت کے دن کا ایک منظر، عذاب آنے پر ظالموں کا درخواست کرنا کہ مہلت دیدی جائے قرآن مجید نازل ہوتا تھا رسول اللہ ﷺ سناتے تھے توحید کی دعوت دیتے تھے لیکن مشرکین مکہ عناد و تکذیب سے باز نہ آتے تھے اور اپنے احوال اور اموال میں مست تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوری طور پر عذاب نہ آنے کی وجہ سے یوں کہتے تھے کہ اگر ہم اللہ کے نزدیک مجرم ہیں تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آجاتا۔ ان کی اس جاہلانہ بات سے دوسرے لوگوں کے متاثر ہونے کا بھی احتمال تھی اللہ جل شانہٗ نے فرما دیا کہ آپ یہ خیال نہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے غافل ہے اسے سب خبر ہے ان کے حال اور انکار و تکذیب کا علم ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ تکذیب کرنے والوں پر وہ دنیا ہی میں عذاب بھیج دے نیز عذاب آنے میں دیر لگنے کی وجہ سے کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ کفر پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دے رہا ہے جب قیامت کا دن ہوگا تو اس کی نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی اور نظر بھی الٹ کر واپس نہ آئے گی ایسی ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھتے ہونگے، کہ پلک بھی نہ جھپک سکے گی تیزی سے دوڑ رہے ہونگے سر اوپر کو اٹھائے ہونگے اور ان کے دل بالکل ہوا ہونگے یعنی دہشت سے حواس باختہ ہوچکے ہونگے مواخذے میں دیر لگنے کی وجہ سے کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ بس یہ دنیا ہے نہ قیامت ہے نہ حساب ہے، نہ عذاب ہے، ڈھیل سے دھوکہ نہ کھائیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ ) کا خطاب ہر اس شخص کی طرف ہے جس کے خیال میں یہ آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کے اعمال سے غافل ہے، پھر فرماتے ہیں کہ یہ خطاب نبی اکرم ﷺ کو بھی ہوسکتا ہے آپ سے ایسے گمان کا صادر ہونا تو محال ہے لہٰذا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے علیم اور خبیر ہونے کے بارے میں جو آپ یقین رکھتے ہیں اسی پر دائم و قائم رہیں اور بعض حضرات نے فرمایا کہ بظاہر خطاب آپ کو ہے لیکن اس سے مقصود دوسروں کو متنبہ کرنا ہے اور اس میں تنبیہ ہے اور تنبیہ شدید و اکید ہے کہ جس ذات سے ایسا گمان ہو ہی نہیں سکتا جب اسے ایسے خیال کی ممانعت کردی گئی تو جو شخص ایسا گمان کرسکتا ہے ہو اسے تو ایسے گمان سے بہت زیادہ دور رہنا چاہیے۔ قیامت کا ہولناک منظر بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْھِمُ الْعَذَابُ ) کہ آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیے جس دن ان پر عذاب آپہنچے گا۔ جب ان پر عذاب آئے گا تو کہیں گے کہ اے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دیدیجیے آپ نے ہمیں جن کاموں کی دعوت دی تھی یعنی آپ کی طرف سے ہمیں جن کاموں کے کرنے کا بلاوا پہنچا تھا ہم ان پر عمل کریں گے اور آپ کا حکم مانیں گے اور رسولوں کا اتباع کریں گے، ان لوگوں کے جواب میں کہا جائے گا کہ تم دنیا میں بستے رہے دنیا کو آباد کیا تمہیں جب حق کی دعوت دی جاتی تھی اور قیامت کے دن کے آنے کی خبر دی جاتی تھی اور اس پر ایمان لانے کو کہا جاتا تھا اور تم ساری سنی ان سنی کردیتے تھے تم تو یوں قسم کھاتے تھے کہ ہمیں دنیا ہی میں رہنا ہے یہاں سے ٹلنا ہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے خوب سمجھایا ﷺ ان کا سمجھانا ایمان لانے کو فرمانا سمجھدار انسان کے لیے کافی تھا لیکن مزید تنبیہ و تذکیر کے لیے یہ بات بھی کم نہ تھی کہ تم لوگ جن بستیوں میں سکونت پذیر تھے اور جن گھروں میں رہتے تھے، تمہیں معلوم تھا کہ یہ ان لوگوں کی بستیاں ہیں اور ان لوگوں کے گھر ہیں، جنہوں نے اللہ کے نبیوں کو جھٹلایا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا اور تمہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جو لوگ ان بستیوں میں رہتے تھے اور ان گھروں میں بستے تھے کفر و انکار کی وجہ سے ان پر عذاب آیا، اور مزید یہ کہ ہم نے تمہارے سامنے مثالیں بیان کیں اور پہلے لوگوں کی بربادی کے واقعات سنائے (جنہیں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے بیان فرمایا) اور تم بھی نسلاً بعد نسل سنتے چلے آ رہے تھے یہ سب کچھ ہوتے ہوئے تم نے حق کو ٹھکرایا قیامت پر ایمان نہ لائے اب کہتے ہو کہ مہلت دی جائے اب مہلت کا کوئی موقعہ نہیں۔
Top