Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 48
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
يَوْمَ : جس دن تُبَدَّلُ : بدل دی جائے گی الْاَرْضُ : زمین غَيْرَ الْاَرْضِ : اور زمین وَالسَّمٰوٰتُ : اور آسمان (جمع) وَبَرَزُوْا : وہ نکل کھڑے ہوں گے لِلّٰهِ : اللہ کے آگے الْوَاحِدِ : یکتا الْقَهَّارِ : سخت قہر والا
جس روز زمین دوسری زمین سے بدل جائے گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے اور سب لوگ اللہ کے لیے ظاہر ہوجائیں گے جو واحد قہار ہے
قیامت کے دن زمین اور آسمان میں تغیر اور تبدل، سب لوگوں کی حاضری، مجرمین کی بدحالی، حساب کتاب اور جزا سزا ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ قیامت کے دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل جائے گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے، بدلنے کا کیا مطلب ہے ان کی ذات بدل دی جائے گی یا صفات بدل دی جائیں گی اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ تبدیلی کی دونوں صورتیں ہوسکتی ہے اور آیت کریمہ کسی ایک معنی کے لیے نص صریح نہیں ہے پھر حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ زمین اس طرح بدل دی جائے گی کہ کچھ بڑھا دی جائے گی کچھ کمی کردی جائے گی اس کے ٹیلے اور پہاڑ اور نشیب اور درخت اور اس میں جو بھی کچھ ہے سب ختم ہوجائے گا اور زمین کو چمڑے کی طرح پھیلا دیا جائے گا جو بالکل برابر ہوجائے گی اور اس میں کوئی کجی اور اٹھی ہوئی جگہ نظر نہ آئے گی اور آسمانوں کو اس طرح بدل دیا جائے گا کہ چاند سورج ستارے سب ختم ہوجائیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے جو فرمایا ہے یہ قرآن مجید کی آیات اور بعض احادیث صحیحہ مرفوعہ کے موافق ہے۔ سورة طٰہٰ میں فرمایا (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّیْ نَسْفًا فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (اور لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں سو آپ فرما دیجیے کہ میرا رب ان کو بالکل اڑا دے گا پھر زمین کو ایک ہموار میدان کردے گا کہ جس میں تو نہ نا ہمواری دیکھے گا نہ کوئی بلندی دیکھے گا) اور سورة زمر میں فرمایا (وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) (اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنی چاہیے تھی حالانکہ ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپیٹے ہونگے اس کے داہنے ہاتھ میں، وہ پاک ہے اور برتر ہے ان کے شرک سے) اور سورة انبیاء میں فرمایا (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ) وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم آسمانوں کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضمونوں کا کاغذ لپیٹ لیا جاتا ہے ہم نے جس طرح شروع میں پیدا کیا اسی طرح لوٹا دیں گے۔ اور سورة حاقہ میں فرمایا (فَاِِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً فَیَوْمَءِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ وَانشَقَّتِ السَّمَآءُ فَہِیَ یَوْمَءِذٍ وَّاھِیَۃٌ) پھر جب صور میں یکبارگی پھونک ماری جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جاویں گے پھر دنوں ایک دفعہ میں ریزہ ریزہ کردئیے جائیں گے تو اس روز وہ ہونے والی چیز ہو پڑے گی اور آسمان پھٹ جاوے گا اور وہ اس روز بالکل بودا ہوگا۔ اور سورة معارج میں فرمایا (یَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَآءُ کَالْمُہْلِ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ ) (جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوجاوے گا اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہوجاویں گے۔ ) اور سورة التکویر میں فرمایا (وَاِِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتْ ) اور جب آسمان کھل جاوے گا اور سورة الانشقاق میں فرمایا (اِِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ وَاِِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ ) (جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے رب کا حکم سن لے گا اور وہ اسی لائق ہے، اور زمین کھینچ کر بڑھا دی جائے گی اور اپنے اندر کی چیزوں کو باہر ڈال دے گی اور خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کا حکم سن لے گی اور وہ اسی لائق ہے۔ ) سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ سفید زمین پر جمع کیے جائیں گے اس کے سفید رنگ میں کچھ مٹیالے رنگ کی ملاوٹ ہوگی (اور) وہ میدے کی روٹی کی طرح ہوگی اس میں کسی قسم کی کوئی نشانی نہ ہوگی (رواہ البخاری) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن زمین ایک روٹی بنی ہوئی ہوگی جبار جل مجدہ اسے اپنے دست قدرت سے اس طرح الٹ پلٹ فرمائے گا جس طرح تم اپنی روٹی کو سفر میں الٹ پلٹ کرتے ہو یہ زمین اہل جنت کو کھانے کے لیے ابتدائی مہمانی کے طور پر پیش کی جائے گی (رواہ البخاری) تاکہ وہ زمین کے سارے مزے مجموعی طور پر چکھ لیں اور اس کے بعد جنت کے مزے چکھیں تو لطف دوبالا ہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ) فرمایا ہے (جس سے آسمان اور زمین کا بدل جانا معلوم ہو رہا ہے) اس کے بارے میں ارشاد فرمائیے کہ اس روز لوگ کہاں ہونگے آپ نے فرمایا کہ اس روز پل صراط پر ہونگے۔ یہ متعدد آیات کریمہ اور احادیث شریف ہیں ان میں تبدیل صفت کا ذکر ہے البتہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے (جو سب سے آخر میں نقل کی گئی ہے) زمین کی ذات تبدیل ہونے کی طرف اشارہ مل رہا ہے، مرقاہ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے والظاھر من التبدیل تغییر الذات کما یدل علیہ السؤال والجواب حیث قالت فاین یکون الناس یومئذ قال علی الصراط۔ صاحب روح المعانی نے ابن الانباری کا قول نقل فرمایا ہے کہ آسمان کی تبدیلی بار بار ہوگی کبھی اس کو لپیٹا جائے گا اور کبھی تلچھٹ کی طرح اور کبھی (وردۃ کالدھان) ہوجائے گا۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ زمین کی تبدیلی اس طرح ہوگی کہ وہ سفید زمین ہوگی گویا کہ چاندی سے ڈھالی گئی ہے اس میں کسی کا خون نہ بہایا گیا ہوگا اور اس پر کوئی گناہ نہ کیا گیا ہوگا، پھر بعض حضرات سے یوں نقل کیا گیا ہے کہ اولاً زمین کی صفت بدل دی جائے گی جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا پھر اس کی ذات بدل دی جائے گی اور یہ ذات کا بدلنا اس کے بعد ہوگا جب وہ اپنی خبریں بتا چکی ہوگی (جس کا ذکر سورة الزلزال میں ہے) اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ولا مانع من ان یکون ھنا تبدیلات علی انحاء شتی اس کے بعد فرمایا (وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ) (کہ لوگ اللہ واحد قہار کے لیے ظاہر ہوجائیں گے) یعنی قبروں سے نکل کر محشور اور مجتمع ہونگے، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فیصلے فرمائے، اللہ واحد یعنی تنہا ہے وحدہ لا شریک لہ ہے اور قہار بھی ہے جو ہر چیز پر غالب ہے، جو کچھ چاہے کرسکتا ہے کوئی اس کے فیصلے کو ٹال نہیں سکتا۔
Top