Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 50
سَرَابِیْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّ تَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُۙ
سَرَابِيْلُهُمْ : ان کے کرتے مِّنْ : سے۔ کے قَطِرَانٍ : گندھک وَّتَغْشٰى : اور ڈھانپ لے گی وُجُوْهَهُمُ : ان کے چہرے النَّارُ : آگ
اور ان کے کرتے قطران کے ہونگے اور ان کے چہروں کو آگ نے ڈھانک رکھا ہوگا
پھر مجرمین کی بدحالی کا تذکرہ فرمایا کہ اے مخاطب تو اس دن مجرمین کو اس حال میں دیکھے گا کہ وہ باہم آپس میں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہونگے یعنی اپنے عقائد کفریہ کے اعتبار سے مختلف قسموں میں بٹے ہوئے ہونگے ایک ایک قسم کے لوگوں کو ملا کر بیڑیوں میں جکڑ دیا جائے گا دنیا میں کفر میں شریک تھے اور ایک دوسرے کے مددگار تھے اب وہاں سزا میں ساتھی ہونگے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں والمراد قرن بعضھم مع بعض وضم کل لمشار کہ فی کفرہ و عملہ ان کی مزید بدحالی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (سَرَابِیْلُھُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ ) قطران عرب میں ایک درخت ہوتا تھا جس کا سیال مادہ نکال کر اور پکا کر کھجلی والے اونٹوں کے جسم پر ملتے تھے جس کی تیزی کی وجہ سے کھجلی جل جاتی تھی جیسا کہ بعض علاقوں میں کھجلی سے چھٹکارا پانے کے لیے گندھک کو سیال کرکے ملایا جاتا ہے یہ قطران جو عرب میں ہوتا تھا آگ کو جلد پکڑتا تھا اور خوب زیادہ تیز ہوتا تھا مطلب یہ ہے کہ مجرمین کے جسموں پر قطران ملایا جائے گا جو ان کے جسموں پر کرتے کی طرح ہوگا اسے دوزخ کی آگ بہت جلد پکڑے گی جیسا کہ دنیا کی آگ دنیا والی قطران کو پکڑتی ہے، مفسر ابن کثیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ قطران پگھلے ہوئے تانبے کو کہتے ہیں دوزخیوں کے لباس تانبے کے ہونگے۔ حضرت ابو مالک اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میت پر چیخ و پکار کر کے رونے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہ کرے گی تو قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس پر ایک کرتہ قطران کا ہوگا اور ایک کرتا کھجلی کا ہوگا (رواہ مسلم) یعنی اس کے جسم پر خارش پیدا کردی جائے گی، اور اوپر سے قطران لپیٹ دیا جائے گا تاکہ اس سے اور زیادہ سوزش اور جلن ہو۔ (وَّتَغْشٰی وُجُوْھَھُمُ النَّارُ ) (اور ان کے چہروں کو آگ نے ڈھانپ رکھا ہوگا) آگ تو سارے ہی جسم کو جلائے گی لیکن چہروں کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے فرمایا ہے کہ چہرہ اشرف الاعضاء ہے اور اس میں حواس ظاہرہ مجتمع ہیں اور سورة ھمزہ میں فرمایا (تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْءِدَۃِ ) اس میں دلوں کا خصوصاً ذکر فرمایا کیونکہ قلب حواس باطنہ کا سردار ہے۔
Top