Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور بیشک ہم نے آسمان میں ستارے پیدا کیے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے زینت والا بنایا
ستارے آسمان کے لیے زینت ہیں اور ان کے ذریعہ شیاطین کو مارا جاتا ہے اللہ جل شانہ نے ان آیات میں آیات تکوینیہ بیان فرمائی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرتی ہیں۔ اول تو یہ فرمایا کہ ہم نے آسمان میں برج یعنی ستارے بنائے ہیں اور آسمان کو زینت والا پررونق بنا دیا، رات کو جب دیکھنے والے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو ستاروں کی جگمگاہٹ سے نہایت عمدہ پررونق منظر نظر آتا ہے، سورة ملک میں فرمایا (وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنَاھَا رُجُوْمًا لِّلشَّیَاطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاب السَّعِیْرِ ) (اور ہم نے قریب والے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور ہم نے ان کو شیطانوں کو مارنے کا ذریعہ بنایا اور ہم نے شیاطین کے لیے دوزخ کا عذاب تیار کیا ہے۔ ) ستاروں کو مصابیح یعنی چراغ سے تعبیر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کو شیاطین کے مارنے کا ذریعہ بنایا ہے مزید توضیح کے لیے سورة صافات کی آیات ذیل اور ان کا ترجمہ پڑھئے (اِِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ لاَ یَسَّمَّعُوْنَ اِِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ دُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ اِِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ) (بلاشبہ ہم نے آسمانوں کو آراستہ کردیا ایک زینت کے ساتھ جو ستاروں کی زینت ہے اور ہم نے محفوظ کردیا ہر سرکش شیطان سے، شیطان عالم بالا کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور ہر جانب سے ان کو مار کر دھکے دئیے جاتے ہیں اور ان کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہے، سوائے اس شیطان کے جو کوئی بات اچک لے تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ لگ جاتا ہے۔ ) سورة حجر اور سورة صافات اور سورة ملک کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ آسمان میں جو ستارے ہیں ان سے آسمان کی زینت بھی ہے اور شیاطین سے حفاظت بھی ہے اور سورة نحل میں فرمایا (وَبِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ ) (اور ستارہ کے ذریعہ وہ لوگ راہ پاتے ہیں) صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت قتادہ (تابعی) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین باتوں کے لیے پیدا فرمایا اول تو انہیں آسمان کی زینت بنایا دوم شیاطین کے مارنے کا ذریعہ بنایا سوم ان کو علامات بنایا جن کے ذریعہ راہ یاب ہوتے ہیں (یعنی راتوں کو سفر کرنے والے ان کے ذریعے اپنے سفر کے رخ کا پتہ چلا لیتے ہیں) سو جس شخص نے ان تینوں باتوں کے علاوہ کوئی اور بات کہی اس نے خطا کی اور اپنا نصیب ضائع کیا اور جس بات کو نہیں جانتا تھا خواہ مخواہ اس کے پیچھے پڑا حضرت قتادہ (رح) نے منجمین کی تردید کی وہ اپنی عمر بھی ضائع کرتے ہیں اور وہ بات کرتے ہیں جن کا انہیں علم نہیں اور ان لوگوں کو بھی تنبیہ فرما دی جو ان کی بات مانتے ہیں اور ان کے پیچھے پھرتے ہیں۔ بروج سے کیا مراد ہے ؟ ہم نے بروج کا ترجمہ ستارے کیا ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ سورة ملک میں ستاروں ہی کو زینت بتایا ہے اور ستاروں ہی کو شیاطین کے مارنے کا ذریعہ بتایا ہے معلوم ہوا جو چیز آسمان کی زینت ہے وہی شیاطین کے مارنے کا سبب ہے بعض مفسرین نے جو بروج کا ترجمہ بروج ہی کیا ہے اور اس سے آسمان کے وہ بارہ برج مراد لیے ہیں جنہیں ہیئت والے بیان کرتے ہیں ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے یہ بارہ برج فرضی ہیں ان کے نام فلاسفہ نے خود رکھ لیے ہیں اور خود ہی تجویز کرلیے ہیں یہ برج شیاطین کو نہیں مارتے پھر آیت کریمہ میں ان سے بروج فلاسفہ کیسے مراد لیے جاسکتے ہیں۔ صاحب تفسیر جلالین نے یہاں سورة حجر میں اور سورة فرقان میں بروج سے وہی فلاسفہ والے بارہ برج مراد لیے ہیں اور ان کے نام بھی لکھے ہیں اور صاحب معالم التنزیل نے اولاً تو یوں لکھا ہے کہ والبروجھی النجوم الکبار پھر وہی فلاسفہ والے بارہ برج اور ان کے نام ذکر کردئیے ہیں صاحب کمالین نے مفسر جلال الدین سیوطی کی تردید کرتے ہوئے کہا ولا یلیق بمثل المصنف ان یذکر تلک الامور المبتنی علی الامور الْوھمیۃ فی التفسیر مع انہ انکر فی کثیر من المواضع فی حاشیۃ الانوار علم الھیءۃ فضلا عن النجوم لکنہ اقتفی الشیخ المحلی حیث ذکرھا فی سورة الفرقان کذلک مصنف جیسے آدمی کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ تفسیر میں ان امور کا ذکر کرے جن کی بنا اوہام پر ہے باوجود اس کے کہ مصنف نے انوار کے حاشیہ میں بہت سارے مواقع میں علم الھیءۃ پر نکیر کی ہے چہ جائیکہ علم نجوم لیکن یہاں مصنف نے شیخ جلالین الدین محلی کی پیروی کی ہے کہ اس نے انہیں سورة الفرقان میں اسی طرح ذکر کیا ہے۔ سورة حجر کی آیت بالا میں فرمایا کہ ہم نے آسمان کو ہر شیطان مردود سے محفوظ کردیا جو کوئی شیطان چوری سے کوئی بات سننے لگے تو اس کے پیچھے روشن شعلہ لگ جاتا ہے، سورة صافات میں اس کو اور زیادہ واضح کرکے بیان فرمایا کہ شیاطین عالم بالا کی طرف کان نہیں لگا سکتے وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہر جانب سے ان کو مارا جاتا ہے اور دور بھگا دیا جاتا ہے، یہ ان کا دنیا میں حال ہے اور آخرت میں ان کے لیے دائمی عذاب ہے ہاں اگر کوئی شیطان اوپر پہنچ کر چوری کے طور پر جلدی سے کوئی کلمہ لے بھاگے تو اس کے پیچھے روشن شعلہ لگ جاتا ہے، بات کے چرانے والے شیطان کو مارنے کے لیے جو چیز پیچھے لگتی ہے اسے سورة حجر میں شہاب مبین سے اور سورة صافات میں شہاب ثاقب سے تعبیر فرمایا شہاب انگارہ کو اور شعلہ کو کہتے ہیں اس شعلے اور انگارے کی کیا حقیقت ہے اس کے سمجھنے کے لیے سورة ملک کی آیت کو بھی سامنے رکھ لیں، سورة ملک میں ستاروں کو چراغ بتایا اور آسمان کی زینت فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ ستارے شیاطین کے مارنے کے لیے ہیں دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ بدون اس سبب کے شہاب پیدا نہیں ہوتا بلکہ دعویٰ یہ ہے کہ استراق کے وقت شہاب سے شیاطین کو رجم کیا جاتا ہے پس ممکن ہے کہ شہاب کبھی محض طبی طور پر ہوتا ہو اور کبھی اس غرض کے لیے ہوتا ہو اور اس میں کوکب (ستارہ) کو یہ دخل ہو کہ سخونییت کوکب (ستاروں کی گرمی) سے خود مادہ شیاطین میں یا مادہ بخارات میں بواسطہ فعل ملائکہ کے نار پیدا ہوجاتی ہے جس سے شیاطین کو ہلاکت یا فساد عقل کا صدمہ پہنچتا ہو 1 ھ۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یہ کاہن جو بطور پیشین گوئی کچھ بتا دیتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں ہیں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کاہن جو بات بیان کرتا ہے ٹھیک نکل آتی ہے، آپ نے فرمایا وہ ایک صحیح بات ہوتی ہے جسے جن اچک لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے جیسے مرغی کڑ کڑ کرتی ہے پھر وہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 393 از بخاری و مسلم) اس سلسلہ میں مزید توضیح اور تشریح کے لیے سورة جن کے پہلے رکوع کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔
Top