Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 57
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : پس کیا ہے تمہارا کام (مہم) اَيُّهَا : اے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتو)
ابراہیم نے کہا کہ اے بھیجے ہوئے فرشتوں تمہارا آنا کس اہم کام کے لیے ہے ؟
یہ مہمان فرشتے تھے جو حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دے کر فرشتوں کا حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آنا یہ فرشتے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد یہ کام بھی کیا تھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کردیں ان کی ہلاکت کا قصہ سورة اعراف اور سورة ھود میں گزر چکا ہے ان لوگوں کو یہ عادت بد پڑی ہوئی تھی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرتے تھے سورة عنکبوت میں ہے کہ جب ان کو عذاب آنے کی وعید سنائی جاتی تھی تو اس پر یقین نہیں کرتے تھے اور نصیحت کا الٹا اثر لیتے تھے اور یوں بھی کہتے تھے (اءْتِنَا بِعَذَاب اللّٰہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) (ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر تو سچوں میں سے ہے) اب جب فرشتے عذاب لے کر آئے تو پہلے حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے چونکہ ان کی صورتیں نئی نئی تھیں کبھی دیکھا نہیں تھا اس لیے انہوں نے بھی وہی بات کہی جو ابراہیم (علیہ السلام) کے منہ سے نکلی تھی کہ تم لوگ تو اجنبی معلوم ہوتے ہو، فرشتوں نے کہا کہ ہم آدمی نہیں ہیں بلکہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں عذاب لے کر آئے ہیں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ہماری بات اور ہماری خبر سچی ہے اور اس عذاب سے ہم تمہیں اور تمہارے سارے خاندان کو نجات دے دیں گے البتہ تمہاری بیوی ہلاکت سے اور عذاب سے نہ بچے گی اسے بھی وہی عذاب پہنچے گا جو اس کی قوم کو پہنچنے والا ہے اب آپ ایسا کریں کہ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جائیں اور آپ ان کے پیچھے ہولیں (تاکہ کوئی رہ نہ جائے اور لوٹ کر واپس بھی نہ آئے) اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور تمہیں جس جگہ جانے کا حکم ہوا ہے اسی طرف چلے جاؤ، روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس سے شام کی سرزمین مراد ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اردن کا علاقہ مراد ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی شرارت اور ہلاکت یہ فرشتے جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے یہ خوبصورت انسانوں کی شکلوں میں تھے اور چونکہ وہ اس بستی کے رہنے والوں میں نہ تھے (اور بستی والے باہر سے آنے والے لوگوں کو اپنے برے مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے) اس لیے بری نیت کے ساتھ خوش ہوتے ہوئے پہنچے تاکہ ان مہمانوں سے اپنا کام نکالیں، حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ یہ میرے مہمان ہیں تم میری فضیحت نہ کرو اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو وہ لوگ اپنی بدمستی میں اندھے بنے ہوئے تھے کہنے لگے کہ کیا ہم آپ کو دنیا بھر کے لوگوں کو مہمان بنانے سے منع نہیں کرچکے ہیں، ہمارے اور آنے والے لوگوں کے درمیان آڑے نہ آئیں، آپ کو کیا ضرورت ہے کہ باہر کے آنے والوں کو مہمان بنائیں نہ آپ مہمان بناتے نہ آپ کے رسوا ہونے کی نوبت آتی، حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا اور فرمایا کہ تمہیں اپنی شہوت کو پوری کرنے کے لیے ان بیہودہ حرکتوں کی کیا ضرورت ہے یہی میری بیٹیاں (قوم کی لڑکیاں) ہیں تم ان پر حلال طریقے سے قضائے شہوت کا کام نکالو ان لوگوں نے کہا ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی مطلب نہیں تمہیں معلوم ہے ہم کیا چاہتے ہیں (کما فی سورة ھود (علیہ السلام) فرشتوں نے کہا کہ آپ تھوڑا سا صبر کریں صبح ہوتے ہی یہ لوگ ہلاک کردئیے جائیں گے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے رات کے وقت نکل گئے بیوی وہیں رہ گئی۔ جب سورج نکلا تو ایک سخت آواز آئی جو بہت کرخت تھی پھر اوپر سے یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے زمین کو اوپر اٹھایا اور زمین کا تختہ الٹ دیا، زمین کے اوپر کا حصہ نیچے ہوگیا اور نیچے کا حصہ اوپر ہوگیا۔ جس سے لوگ دب گئے اور مزید یہ ہوا کہ لگاتار مسلسل پتھر برسا دئیے گئے۔ یہ پتھر سجیل کے تھے سورة ھود اور سورة حجر میں (بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ) فرمایا اور سورة ذاریات میں (حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ ) فرمایا ہے دونوں جگہ کی تصریح سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں پر جو پتھر برسائے گئے تھے وہ عام پتھر یعنی پہاڑوں کے ٹکڑے نہیں تھے بلکہ ایسے پتھر تھے جو مٹی سے پکا کر بنائے جاتے ہوں جس کا ترجمہ ” کنکر “ کیا گیا ہے۔ یہ لفظ سنگ اور گل سے مرکب ہے سنگ پتھر کو اور گل مٹی کو کہتے ہیں مٹی کو اگر پکایا جائے تو اس سے پتھر کی طرح ایک چیز بن جاتی ہے۔ سورة ھود میں (سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ ) فرمایا یعنی ان پر پتھروں کی جو بارش کی گئی جو لگاتار گر رہے تھے آیات قرآنیہ کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر تینوں طرح کا عذاب آیا چیخ نے بھی پکڑا، ان کی زمین کا تختہ بھی الٹ دیا گیا، اور ان پر پتھر بھی برسا دئیے گئے ان بستیوں کو سورة برأۃ میں (الْمُؤْتَفِکَاتِ ) (یعنی الٹی ہوئی بستیاں فرمایا ہے) اور سورة نجم میں فرمایا ہے (وَالْمُؤْتَفِکَۃَ اَھْوی فَغَشّٰہَا مَا غَشّٰی) (اور الٹی ہوئی بستیوں کو پھینک مارا پھر ان بستیوں پر وہ چیز چھا گئی جو چھا گئی) یعنی اوپر سے پتھر برسنا شروع ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) مومنین کو لے کر راتوں رات بستیوں سے نکل چکے تھے جو عذاب آیا وہ کافروں پر آیا۔ ان کی بیوی کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں یا تو ان کے ساتھ نکلی ہی نہ تھی یا ساتھ تو نکلی تھی لیکن پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور ہلاک والوں میں شریک ہوگئی ایک پتھر آیا اور اسے وہیں قتل کردیا۔ یہاں بظاہر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب زمین الٹ دی گئی تو وہ اسی سے مرگئے ہونگے پھر پتھر کیوں برسائے گئے ؟ اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ بستیوں سے باہر تھے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی گئی۔ یہ بستیاں نہر اردن کے قریب تھیں ان کو الٹ دیا گیا اور ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے بحرمیت پیدا فرمایا جو آج بھی موجود ہے پانی بد بو دار ہے اس سے انسانوں کو یا کھیتوں کو نفع نہیں ہوتا اور یہ پانی انہیں بستیوں کی حدود میں ہے کسی دوسری جگہ سے نہیں آتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت سے عبرت حاصل کریں جن کی الٹی ہوئی بستیوں پر گزرتے ہیں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بربادی کا تذکرہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ وَ اِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) (بلاشبہ اس میں بصیرت والوں کے لیے نشانیاں ہیں، بلاشبہ یہ بستیاں شاہراہ عام پر پڑی ہیں، بیشک اس میں اہل ایمان کے لیے نشانی ہے۔ ) ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ یہ جو حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم ہلاک ہوئی اس میں بصیرت والوں کے لیے نشانیاں ہیں کہ کفر اور فعل بد کا برا نتیجہ ہے اور ایمان اور طاعت باعث نجات ہے، پھر یہ فرمایا کہ یہ بستیاں ایک عام شاہراہ پر پڑتی ہیں، اہل عرب جب شام کو جاتے ہیں تو ان الٹی ہوئی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہ کرنا بہت بڑی حماقت اور شقاوت ہے، اس کے بعد مزید توجہ دلائی اور عبرت کی طرف متوجہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ان بستیوں میں اہل ایمان کے لیے بڑی نشانی ہے، جس نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی وہ عبرت کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتا اہل ایمان ہی نصیحت قبول کرتے ہیں، اور مانتے ہیں اور عبرت حاصل کرتے ہیں، سورة صافات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے (وَاِِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُصْبِحِیْنَ وَبِالَّیْلِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) (اور تم ان پر صبح کے وقت اور رات کے وقت گزرا کرتے ہو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے) اہل عرب تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے راستے میں یہ بستیاں بھی پڑتی تھی جن کا تختہ الٹ دیا گیا تھا کبھی صبح کے وقت اور کبھی رات کے وقت وہاں سے گزر ہوتا تھا ان لوگوں کو یاد دلایا کہ دیکھو کافروں اور بدکاروں کا کیا انجام ہوا تم وہاں سے گزرتے ہو اور الٹی ہوئی بستیاں دیکھتے ہو پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے کیا بالکل ہی سمجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہو، قرآن مجید بیان سامنے ہے تاریخوں میں بھی واقعہ موجود ہے لیکن عبرت کا نام نہیں، کفر کی وجہ سے اور مردوں سے قضاء شہوت کرنے کی وجہ سے یہ عذب آیا تھا، اب یورپ کی اقوام کو دیکھ لو جو مہذب سمجھی جاتی ہیں ہلاکت کے دھارے پر ہیں کافر تو ہیں ہی زناکاری ان میں عام تھی ہی اب مردوں سے قضاء حاجت کرنے کا رواج بھی عام ہوگیا ہے اور حکومتوں نے قانونی طور پر ان کو جائز قرار دے دیا ہے۔ (فَا نْتَظِرُوْآ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ )
Top