Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 125
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اُدْعُ : تم بلاؤ اِلٰى : طرف سَبِيْلِ : راستہ رَبِّكَ : اپنا رب بِالْحِكْمَةِ : حکمت (دانائی) سے وَالْمَوْعِظَةِ : اور نصیحت الْحَسَنَةِ : اچھی وَجَادِلْهُمْ : اور بحث کرو ان سے بِالَّتِيْ : ایسے جو هِىَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب هُوَ : وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِمَنْ : اس کو جو ضَلَّ : گمراہ ہوا عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِالْمُهْتَدِيْنَ : راہ پانے والوں کو
'' اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے بلائیے، اور ان سے ایسے طریقے پر بحث کیجیے جو اچھا طریقہ ہو، بلاشبہ آپ کا رب ان کو خوب جاننے والا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گئے اور وہ ان کو خوب جانتا ہے جو ہدایت کی راہ پر چلنے والے ہیں
دعوت و ارشاد اور اس کے آداب اس آیت میں دعوت الی اللہ کا طریقہ بتایا ارشاد فرمایا (اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بالْحِکْمَۃِ ) (آپ اپنے رب کی طرف حکمت کے ذریعہ بلائیے) (وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ) (اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ) (وَ جَادِلْھُمْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) (اور ان سے ایسے طریقہ پر بحث کیجیے جو بہت اچھا طریقہ ہو) اس میں تین چیزوں کی رعایت رکھنے کا حکم فرمایا اول حکمت دوسرے موعظہ حسنہ تیسرے اچھے طریقے پر بحث کرنا حکم تو رسول اللہ ﷺ کو ہے لیکن آپ کے توسط سے ساری امت کو اس کا حکم فرما دیا ہے حکمت، موعظہ حسنہ، مجادلہ بطریق احسن یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے ذریعہ دعوت دی جائے تو عموماً منصف مزاج بات مان لیتے ہیں اور دعوت حق قبول کرلیتے ہیں دعوت الیٰ الایمان ہو یا اعمال صالحہ کی دعوت ہو سب میں مذکورہ بالا چیزیں اختیار کرنا ضروری ہے۔ حکمت سے کیا مراد ہے ؟ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے بعض حضرات سے نقل کیا ہے انھا الکلام الصواب الواقع من النفس اجمل موقع یعنی حکمت وہ صحیح بات ہے جو نفس انسانی میں خوبصورت طریقہ پر واقع ہوجائے۔ حکمت کی دوسری تعریفیں بھی کی گئی ہیں لیکن ان سب کا مآل یہی ہے کہ ایسے طریقے پر بات کی جائے جسے مخاطب قبول کرلے، یہ طریقے افراد و احوال کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ یہ چاہتا ہو کہ مخاطبین میری بات کو قبول کر ہی لیں وہ اس کے لیے تدبیریں سوچتا ہے، واسطوں کو استعمال کرتا ہے نرمی سے کام لیتا ہے، ثواب بتاتا ہے اور عذاب سے بھی ڈراتا ہے، موقعہ دیکھ کر بات کرتا ہے۔ جو لوگ مشغول ہوں ان سے بات کرنے کے لیے فرصت کا انتظار کرتا ہے اور اتنی دیر بات کرتا ہے جس سے وہ تنگدل اور ملول نہ ہوجائیں، اگر پہلی بار مخاطبین نے اثر نہ لیا تو پھر موقع کا منتظر رہتا ہے، پھر جب موقعہ پاتا ہے پھر بات کہہ دیتا ہے اور اس میں زیادہ تر نرمی ہی کام دیتی ہے، اللہ تعالیٰ شانہ نے جب حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو فرمایا (فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی) (سو تم دونوں اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، ممکن ہے کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈر جائے) البتہ اپنے لوگوں کو موقعہ کے مناسب کبھی سختی سے خطاب کرنا بھی مناسب ہوتا ہے، جیسا کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو سختی سے مخاطب فرمایا جبکہ انہوں نے عشاء کی نماز میں لمبی قرأت کردی تھی، صاحب حکمت اپنے نفس کے ابھار اور کسی بغض و حسد کی وجہ سے مخاطب کو نہیں ڈانٹتا داعی کے لیے ضروری ہے کہ ناصح یعنی خیر خواہ بھی ہو اور امین یعنی امانت دار ہو جیسا کہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا (وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ) (اور میں تمہارے لیے خیر خواہ ہوں امین ہوں) حکمت کا یہ بھی تقاضا ہے جو بہت ہی اہم ہے کہ دین کو آسان کرکے پیش کرے اور نفرت پیدا ہونے کا سبب نہ بنے، حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا وَ بَشِّرُوْا وَلاَ تُنَفِّرُوْا (آسانی کے ساتھ بات کرو اور سختی سے پیش نہ آؤ اور بشارت دو ، نفرت نہ لاؤ) (صحیح بخاری ص 12 ج 1) بہت سے لوگوں میں حق کہنے کا جذبہ تو ہوتا ہے لیکن وہ موقع نہیں دیکھتے، ہتھوڑا مار کر یا الاہنا اتار کر مطمئن ہوجاتے ہیں، کہ ہم نے تو بات کہہ دی اپنا کام کردیا لیکن اس سے مخاطب کو فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ بعض مرتبہ ضد وعناد پیدا ہوجاتا ہے، ہاں جہاں پر حق دب رہا ہو وہاں زبان سے کہہ دینا بھی بڑی بات ہے ایسے موقع پر حکمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ حق کلمہ کہہ دیا جائے اسی کو فرمایا ہے۔ اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ قَالَ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَاءِرٍ (رواہ البغوی فی شرح السنۃ) (سب سے زیادہ فضیلت والا جہاد اس شخص کا جہاد ہے جس نے ظالم بادشاہ کے سامنے حق کلمہ کہہ دیا۔ ) حکمت کی باتوں میں سے یہ بھی ہے کہ بات کہنے میں اس کا لحاظ رکھا جائے کہ سننے والے ملول اور تنگ دل نہ ہوں، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات کو لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے ایک شخص نے کہا کہ اگر آپ روزانہ بیان فرمایا کرتے تو اچھا ہوتا حضرت عبد اللہ مسوہد ؓ نے فرمایا کہ میں روزانہ اس لیے بیان نہیں کرتا کہ تمہیں ملول اور تنگ دل کرنا گوارا نہیں ہے، میں تمہیں رغبت کے ساتھ موقع دیتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے موقع کا دھیان رکھتے تھے تاکہ ہم تنگدل نہ ہوجائیں۔ (صحیح بخاری ص 12 ج 1) حکمت کے تقاضوں میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں نہ کرے، جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوں اور ایسی باتیں بھی نہ کرے جو لوگوں کے لیے عجوبہ بن جائیں، اگرچہ باتیں صحیح ہوں لوگوں کو قریب کرتے رہیں تھوڑا تھوڑا علم ان کے دلوں میں داخل کرتے رہیں لوگ جب بات کو سمجھنے کے قابل ہوجائیں اس وقت وہ بات کہیں حضرت علی ؓ نے بیان فرمایا حدثوا الناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اللّٰہ ورسولہ (صحیح بخاری ص 24 ج 1) یعنی لوگوں کے سامنے وہ باتیں بیان کرو جنہیں وہ پہچانتے ہوں کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے (مطلب یہ ہے کہ بات تم صحیح پیش کرو گے لیکن مخاطبین کی سمجھ سے بالاتر ہوگی تو وہ کہیں گے ایسا نہیں ہے یا یوں کہیں گے ایسا نہیں ہوسکتا) اسی وجہ سے حضرات علماء کرام نے فرمایا کہ جس علاقہ میں جو قرأت اور جو روایت رائج ہو عوام کے مجمع میں اسی کو پڑھا جائے جیسے ہمارے ملکوں میں حضرت امام عاصم (رح) کی قرأت اور حضرت حفص (رح) کی روایت رواج پذیر ہے کوئی کلمہ کسی دوسری قرأت کا پڑھ دیا جائے تو حاضرین کہیں گے کہ اس نے قرآن کو غلط پڑھ دیا اور اس تکذیب کا سبب وہ قاری ہی بنے گا جس نے کسی دوسری قرأت کے مطابق تلاوت کردی۔ نیز حکم کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اجتماعی خطاب میں سختی ہو اور انفرادی گفتگو میں نرمی اور حکمت کے طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو کسی غیر شرعی کاموں میں مبتلا دیکھے تو بجائے اس سے خطاب کرنے کے محفل عام میں یوں کہہ دے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں، فلاں فلاں گناہ کی یہ وعید ہے اس طرح سے ہر وہ شخص متنبہ ہوجائے گا جو اس گناہ میں مبتلا ہوگا رسول اللہ ﷺ بعض مرتبہ یوں بھی خطاب فرماتے تھے کہ ما بال اقوام یفعلون کذا کما قال ما بال اقوام یصلون معنا لا یحسنون الطھور وانما یلبس علینا القرآن اولٰءِکَ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 39) لفظ حکمت بہت جامع لفظ ہے اس کی جتنی بھی تشریح کی جائے کم ہے، اجمالی طور پر یہ سمجھ لیا جائے، کہ جس فرد یا جس جماعت سے خطاب کرنا ہے ان سے اس طرح بات کی جائے کہ بات قبول کرلینا اقرب ہو اور ایسا انداز اختیار کیا جائے، جس سے وہ متوحش نہ ہوں، داعی کے طریقہ کار کی وجہ سے نہ چڑ جائیں نہ عناد پر کمر باندھ لیں مقصود حق قبول کرانا ہو نفرت دلانا نہ ہو، جب کوئی شخص نیک نیتی سے اس مقصود کو لے کر آگے بڑھے گا تو خیر پہنچانے کے وہ طریقے اس کے ذہن میں آئیں گے جو اسے کسی نے نہیں بتائے اور جو اس نے کتابوں میں نہیں پائے، انشاء اللہ تعالیٰ اور واضح رہے کہ کسی فرد یا جماعت کو راہ حق پر لانے کے لیے خود گناہ کرنا حلال نہیں بعض لوگ دوسروں کو ہدایت دینے کے لیے بدعتوں میں شریک ہوجاتے ہیں یا جانتے بوجھتے ہوئے مال حرام سے دعوت کھالیتے ہیں یہ طریقہ شریعت کے خلاف ہے، ہمیں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ دوسرے کو خیر پر لگانے کے لیے خود گنہگار ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے دعوت دینے کا ارشاد فرماتے ہوئے مزید فرمایا (اَلْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ) کہ موعظہ حسنہ کے ذریعہ دعوت دو یہ لفظ بھی بہت جامع ہے ترغیب وترہیب والی آیات اور احادیث بیان کرنا اور ایسی روایات سنانا جن سے دل نرم ہو اور ایسے واقعات سامنے لانا جن سے آخرت کی فکر ذہنوں میں بیٹھ جائے اور گناہ چھوڑنے اور نیک اعمال اختیار کرنے کے جذبات قلوب میں بیدار ہوجائیں یہ سب چیزیں موعظہ حسنہ میں آجاتی ہیں۔ مخاطبین کو ایسے انداز سے خطاب نہ کرے، جس سے وہ اپنی اہانت محسوس کریں اور دل خراش طریقہ اختیار نہ کرے۔ جب اللہ کی راہ پر لگانا ہے تو پھر ایسے طریقہ اختیار کرنا جس سے کہ لوگ مزید دور ہوجائیں اس کی گنجائش کہاں ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کا عمل موعظہ حسنہ کے خلاف ہوگا۔ تیسری بات یوں فرمائی (وَ جَادِلْھُمْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) (کہ ان سے اچھے طریقے سے جدال کرو) جدال سے جھگڑا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ سوال جواب مراد ہے جس کا ترجمہ مباحثہ سے کیا گیا ہے، جن لوگوں سے خطاب ہو ان میں بہت سے لوگ باوجود باطل پر ہونے اور اسلاف کی تقلید جامد ہونے کی وجہ سے حق کو دبانے کے لیے الٹے الٹے سوال کرتے ہیں ان کا جواب دینے کے لیے ایسا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جس سے ان کا منہ بند ہوجائے اور ان کے لاجواب ہونے کو دیکھ کر ان کے ماننے والے گمراہی سے منحرف ہوجائیں اور حق کو قبول کرلیں، جب کسی شخص میں اخلاص ہوتا ہے اور اللہ کے بندوں کی ہمدردی پیش نظر ہوتی ہے تو اللہ کی توفیق سے سوال جواب اور مباحثہ میں عمدگی اور نرمی اور موثر طریقے سے گفتگو کی توفیق ہوجاتی ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو دیوانہ، جادوگر، گمراہ، احمق کہا گیا اور بےت کے سوالات کیے گئے ان حضرات نے صبر و تحمل سے کام لیا جس کے واقعات سورة اعراف اور سورة ہود اور سورة شعراء میں مذکور ہیں، اگر کوئی شخص برے طریقے پر پیش آئے تو اس سے اچھے طریقے پر پیش آنا لازمی ہے، سورة حٰمٓ سجدہ میں فرمایا۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلا السَّیّْءَۃُ اِدْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ وَمَا یُلَقَّاھَا اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقَّاھَا اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ) اور اس سے اچھی کس کی بات ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یوں کہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں اور نہیں برابر ہوتی، اچھی خصلت اور بری خصلت، تو اس طریقے پر دفع کر جو طریقہ اچھا ہو، پھر اچانک وہ شخص جس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا خالص دوست ہوتا ہے اور یہ خصلت انہیں لوگوں کو دی جاتی ہے جنہوں نے صبر کیا اور انہی کو دی جاتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔ سورة قصص میں فرمایا (وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ ) اور وہ لوگ جو لغو بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں تم پر سلام ہو ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔ جاہلوں اور معاندوں سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹنا پڑتا ہے، اگر داعی حق نے بھی جاہل اور معاند کے مقابلہ میں آستینیں چڑھالیں، آنکھیں سرخ کرلیں، لہجہ تیز کردیا، ناشائستہ الفاظ زبان سے نکال دئیے تو پھر داعی اور مدعو اور صاحب حق اور صاحب باطل میں فرق کیا رہا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ایک بادشاہ نے (جس کا نام نمرود بتایا جاتا ہے) اللہ تعالیٰ کے بارے میں بحث کی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا (رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ) (کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے) اس پر اس نے جیل خانے سے دو قیدی بلائے ان میں سے ایک کو قتل کردیا اور ایک کو رہا کردیا اور کہنے لگا کہ (میں بھی زندہ کرتا ہوں اور موت دیتا ہوں) اس نے اپنی جہالت سے یا عناد سے ایسا کیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے زندہ کرنے اور موت دینے کے بارے میں بحث کرنے کے بجائے بات کا انداز بدل دیا اور فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو پورب سے لے کر آتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ، یہ سن کر وہ کافر حیران رہ گیا، اور کوئی جواب بن نہ پڑا، اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) زندہ کرنے اور موت دینے کا مفہوم متعین کرنے اور سمجھانے اور منوانے میں لگتے تو ممکن تھا کہ وہ جاہل کافر غلط مفہوم پر ہی اڑا رہتا، اور خواہ مخواہ جھک جھک کرتا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بات کا انداز ایسا اختیار فرمالیا جس سے وہ کافر جلد ہی خاموش ہوگیا۔ یہ واقعہ سورة بقرہ رکوع (35) میں مذکور ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک اور واقعہ بھی ہے جو سورة انبیاء میں مذکور ہے، ان کی قوم بت پرست تھی، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک دن ان بتوں کو توڑ ڈالا۔ وہ لوگ کہیں گئے ہوئے تھے واپس آئے تو دیکھا کہ بت ٹوٹے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے کہ ابراہیم کیا تم نے یہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے اور اگر بولتے ہیں تو انہیں سے پوچھ لو اس پر وہ لوگ کہنے لگے یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ یہ تو بولتے نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گفتگو کرتے کرتے انہیں یہاں تک لے آئے اور ان سے کہلوا دیا کہ یہ بولتے نہیں، تو اب تبلیغ فرمائی اور توحید کی دعوت دی۔ (قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْءًا وَّ لَا یَضُرُّکُمْ اُفٍّ لَّکُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) سو تم ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع دے سکے اور نہ ضرر پہنچا سکے۔ تم پر افسوس کیا تم سمجھ نہیں رکھتے۔ یہ ترکیب سے بات کرنا اور تدبیر سوچنا سب موعظہ حسنہ میں داخل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اصلاح کے لیے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ کسی کی غلطی پر متنبہ فرمانے کے لیے بعض مرتبہ سلام کا جواب نہیں دیا، حضرت عمار بن یاسر ؓ نے بیان فرمایا کہ میں ایک مرتبہ سفر سے آیا، میرے ہاتھ پھٹے ہوئے تھے میرے گھر والوں نے ان پر زعفران لگا دیا، ان کے بعد میں صبح کو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا، اور فرمایا جاؤ اس کو دھو ڈالو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 581 از ابو داؤد) اور آپ ﷺ کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کسی کے پیچھے کوئی کلمہ فرما دیا، وہ اسے پہنچ گیا اس پر اس نے اپنی اصلاح کرلی۔ حضرت خریم اسدی ایک صحابی تھے آپ ﷺ نے فرمایا خریم اچھے آدمی ہیں اگر ان کے بال بہت لمبے نہ ہوتے اور تہبند لٹکا ہوا نہ ہوتا۔ حضرت خریم کو یہ بات پہنچ گئی تو انہوں نے اپنے بال کاٹ لیے جو کانوں تک رہ گئے اور اپنے تہبند کو آدھی پنڈلی تک کرلیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 382 از ابی داؤد) ایک مرتبہ آپ ﷺ باہر تشریف لے گئے وہاں دیکھا ایک اونچا قبہ بنا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ عرض کیا کہ یہ فلاں انصاری کا ہے، آپ ﷺ خاموش ہوگئے اور اس بات کو اپنے دل میں رکھا جب قبہ والے صاحب حاضر خدمت ہوئے تو انہوں نے سلام کیا، آپ ﷺ نے سلام کا جواب نہیں دیا کئی بار ایسا ہوا جس کی وجہ سے قبہ والے صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ آپ ﷺ ناراض ہیں۔ حاضرین سے انہوں نے دریافت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا رخ بدلا ہوا دیکھ رہا ہوں، صحابہ ؓ نے بتایا کہ آپ ایک دن باہر تشریف لے گئے تھے اور تمہارے قبہ کو دیکھ لیا تھا۔ یہ معلوم کرکے وہ صاحب واپس لوٹے اور اپنے قبہ کو گرا کر زمین کے برابر کردیا، اب حضرات صحابہ ؓ کا ادب دیکھو کہ واپس آکر یوں نہیں کہا کہ میں گرا آیا ہوں، پھر آپ کسی دن اس طرف تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ قبہ نہیں ہے دریافت فرمایا کہ وہ قبہ کیا ہوا ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ قبہ والے صاحب نے آپ کی بےرخی کی شکایت کی تو ہم نے یہ بتادیا کہ تمہارے قبے پر آپ کی نظر پڑگئی تھی لہٰذا انہوں نے اس کو گرا دیا تو آپ نے فرمایا کہ خبردار ہر عمارت صاحب عمارت کے لیے وبال ہے۔ سوائے اس عمارت کے جس کی ضرورت ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 441) ان روایات سے معلوم ہوا کہ ڈانٹنا ڈپٹنا جھڑکنا سختی کرنا ہی تعلیم و تبلیغ نہیں ہے۔ زیادہ تر نرمی سے اور حکمت و تدبیر سے کام چلانا چاہیے، کہیں ضرورت پڑگئی تو سختی بھی کرلینی چاہیے لیکن ہمیشہ نہیں، بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے تو نرمی و تواضع سے پیش آتے ہیں، لیکن اپنے آل اولاد کے ساتھ صرف سختی اور مارپٹائی ہی کا معاملہ کرتے ہیں جس سے بعض بچوں کو ضد ہوجاتی ہے جب تک کم عمر رہتے ہیں پٹتے رہتے ہیں پھر جب بڑے ہوجاتے تو بڑھ چڑھ کر نافرمانی کرتے ہیں، اس وقت ان کو دین پر ڈالنا مشکل ہوجاتا ہے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا علیک بالرفق وایاک العنف، ان الرفق لا یکون فی شئ الا زانہ ولا ینزع من شئ الاشانہ (اے عائشہ نرمی کو لازم پکڑلو اور سختی سے اور بدکلامی سے بچو بلاشبہ جس کسی چیز میں نرمی ہوگی وہ اسے زینت دے دے گی اور جس چیز سے نرمی ہٹالی جائے گی وہ اسے عیب دار بنا دے گی) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (من یحرم الرفق یحرم الخیر) جو شخص نرمی سے محروم کردیا گیا خیر سے محروم کردیا گیا۔ اصلاح کا طریقہ یہ بھی ہے کہ گناہ کرنے والوں سے قطع تعلق کرلیا جائے، لیکن یہ اسی وقت مفید ہے جب وہ شخص اثر لے جس سے تعلق قطع کیا گیا ہے، آج کل تو یہ زمانہ ہے کہ گناہوں میں جو لوگ مبتلا ہیں اگر ان سے تعلق توڑ لیا جائے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اچھا ہوا تم روٹھے اور ہم چھوٹے، لہٰذا کسی نیک آدمی کے ناراض ہونے کا کچھ اثر نہیں لیتے، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ معاشرہ میں شر اور معاصی کا اٹھان زیادہ ہے، دینداروں کو حاجت ہے کہ اہل معاصی سے ملیں جلیں ان سے مال خریدیں، گنہگاروں کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ دینداروں کے پاس آئیں، اسی لیے قطع تعلق اور بائیکاٹ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اصل مقصود اصلاح ہونی چاہیے، داعی اور مبلغ ہمدردانہ طور پر سوچے کہ فلاں فرد اور فلاں جماعت میں کیا طریقہ کار مناسب ہوگا، پھر اس کے مطابق عمل کرے، بعض بزرگوں نے فرمایا کہ دعوت و اصلاح کے کام میں اگر مردم شناسی اور موقعہ شناسی کو پیش نظر رکھا جائے تو بات ضائع نہیں جاتی۔ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جہاں دعوت و تبلیغ میں اخلاص ہوگا، اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہوگی وہاں نفس اور نفسانیت کا دخل نہ ہوگا، بعض لوگ کسی کو گناہ پر ٹوکتے ہیں تو اصلاح مقصود نہیں ہوتی، دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے ٹوکتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں جس شخص سے ان بن ہوگئی اسے ذلیل کرنے کے لیے مجمع میں ٹوک دیا، مقصود اصلاح نہیں ہوتی بلکہ بدلہ لینا اور ذلیل کرنا مقصود ہوتا ہے جب بات کرنے والے ہی کی نیت اصلاح کی نہیں ہے تو مخاطب پر کیا اثر ہوگا، بہرحال مبلغ و داعی کو خیر خواہ ہونا لازم ہے۔ آخر میں فرمایا (اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بالْمُھْتَدِیْنَ ) (بلاشبہ آپ کا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گئے اور وہ ہدایت والوں کو خوب زیادہ جاننے والا ہے) آپ اپنی محنت کرتے رہیں ہدایت قبول کرنے والوں اور گمراہی پر جمنے والوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، وہ اپنے علم کے مطابق جزا سزا دے گا۔
Top