Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 40
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۠   ۧ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں قَوْلُنَا : ہمارا فرمانا لِشَيْءٍ : کسی چیز کو اِذَآ اَرَدْنٰهُ : جب ہم اس کا ارادہ کریں اَنْ نَّقُوْلَ : کہ ہم کہتے ہیں لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
ہم جس کسی چیز کو پیدا کرنا چاہیں اس کے بارے میں ہمارا یہ کہہ دینا ہوتا ہے کہ ہوجا لہٰذا وہ وجود میں آجاتی ہے
لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوتا تھا کہ مرنے کے بعد لوگ کیسے زندہ کیے جائیں گے اللہ جل شانہٗ نے ان کا استبعاد دور فرمایا اور اپنی قدرت کا ملہ بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا (اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ) (کہ جب ہم کسی چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ کریں تو ہمارا یہ فرما دینا کافی ہے کہ ہوجا لہٰذا وہ چیز وجود میں آجاتی ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کے پیدا فرمانے پر قدرت ہے، کسی بھی چیز کا پیدا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے جس نے پہلے سب کو پیدا فرمایا وہ اس بات پر کیسے قادر نہ ہوگا کہ دوبارہ پیدا فرما دے، قیامت اور بعث و نشر کا انکار کرنے والے یہ تو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو پیدا فرمایا ہے لیکن یہ بات نہیں مانتے کہ موت کے بعد دوبارہ پیدا ہوں گے۔ سورة ق میں ان کے استبعاد کو دور فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَفَعَیْیْنَا بالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ) (کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے) اور سورة یٰسین میں فرمایا (قُلْ یُحْیْیْہَا الَّذِیْ اَنشَاَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ) (آپ فرما دیجیے کہ ان گلی ہوئی ہڈیوں کو وہی زندہ فرمائے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا فرمایا اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے) جس کے (کُنْ ) (ہوجا) فرمانے سے ہر چیز کا وجود ہوجاتا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ دوبارہ کیسے پیدا فرمائے گا جہالت ہے اور حماقت ہے۔ (کُنْ ) فرمانے کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں ضروری بحث سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ (انوار البیان جلد اول)
Top