Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 48
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف مَا خَلَقَ : جو پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : جو چیز يَّتَفَيَّؤُا : ڈھلتے ہیں ظِلٰلُهٗ : اس کے سائے عَنِ : سے الْيَمِيْنِ : دائیں وَالشَّمَآئِلِ : اور بائیں سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَهُمْ : اور وہ دٰخِرُوْنَ : عاجزی کرنے والے
'' کیا ان لوگوں نے ان چیزوں کو نہیں دیکھا جو اللہ نے پیدا فرمائی ہیں ان کے سائے دائیں طرف اور بائیں طرف کو اس طرح جھکتے ہیں کہ وہ اللہ کے فرمانبردار ہیں اور عاجز ہیں
ہر مخلوق فرشتے وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں ان آیات میں بندوں کو اللہ تعالیٰ نے توحید کے دلائل کی طرف متوجہ فرمایا ہے اور اپنی شان خالقیت اور مالکیت بیان فرمائی ہے اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا فرمائی ہیں ان کو کیوں نہیں دیکھتے ؟ ان میں غور کرو اور دیکھو کہ ان کا سایہ دائیں طرف بائیں طرف جو زمین پر پڑتا ہے اس سائے میں بھی اللہ تعالیٰ شانہٗ کی شان خالقیت ظاہر ہو رہی ہے یہ سائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں اللہ تعالیٰ جس طرف چاہتے ہیں یہ سائے اسی طرف جھکتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں اور اس کے حکم کے سامنے عاجز محض ہیں، اور سایوں پر اور سایہ والی چیزوں پر کچھ منحصر نہیں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں، ان میں حیوانات بھی ہیں اور فرشتے بھی، اور یہ فرشتے تکبر نہیں کرتے فرمانبرداری اور اطاعت ہی ان کا شعار ہے، فرشتے اس بات کو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شانہ پوری طرح قدرت رکھتا ہے اور قاہر اور غالب ہے اور اس سے ڈرتے ہیں کہ اس کی طرف سے کوئی گرفت نہ ہوجائے قال صاحب الروح ص 58 ج 3 و معنی کونہ سبحانہ فوقھم قھرہ وغلبتہ لان الفوقیۃ المکانیۃ مستحیلۃ بالنسبۃ الیہ تعالیٰ (وقال ایضا) وخوف ربھم کنایۃ عن خوف عذابہ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ان کے اوپر ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا قہر اور غلبہ ہے کیونکہ مکانی برتری اللہ تعالیٰ کی نسبت سے محال ہے اور فرمایا ان کے رب کا خوف کنایہ ہے اس کے عذاب کے خوف سے) اور علامہ بغوی معالم التنزیل میں لکھتے ہیں (ھو) کقولہ تعالیٰ وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ) سایوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں اللہ تعالیٰ جس طرف چاہتا ہے اسی طرف سایہ پڑتا ہے اور سایہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور گھٹتا بھی ہے ہر طرح کا تصرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، اور سب تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے منقاد اور فرمانبردار ہیں اس لیے (سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَ ھُمْ دٰخِرُوْنَ ) فرمایا ہے سورة فرقان میں فرمایا (اَلَمْ تَرَی اِِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا) (کیا تو نے اپنے رب کو نہیں دیکھا اس نے سایہ کو کس طرح پھیلا دیا اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا رکھتا پھر ہم نے آفتاب کو اس پر علامت مقرر کیا پھر ہم نے اس کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیا) جب آفتاب نکلتا ہے تو ہر چیز کا سایہ لمبا ہوتا جاتا ہے پھر جیسے جیسے آفتاب بلند ہوتا ہے سایہ کم ہوتا جاتا ہے بظاہر سایہ کا وجود آفتاب کے چلنے اور اس کے سامنے اجسام کثیف آنے کی وجہ سے ہے لیکن خود آفتاب کی حرکت ہی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے اور پھر سایوں کا وجود میں آنا اور گھٹنا بڑھنا یہ سب بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو ذرا سا بھی سایہ نہ ہو، سایہ کا ایک مثل دو مثل ہونا سایہ کے بڑھنے ہی کی وجہ سے ہے اللہ چاہتا تو سایہ ایک ہی جگہ پر ٹھہرا رہتا جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے نہ آفتاب خود کوئی حیثیت رکھتا ہے اور نہ سایہ، سب اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ سایوں کی فرمانبرداری بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا جو بھی چیزیں آسمان اور زمین میں ہیں سب اللہ کی فرمانبردار ہیں، تکوینی طور پر ان کا وجود اور ان کی کیفیات اسی طرح سے ہیں جس طرح سے اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے ان میں شمس و قمر، ستارے، درخت، پہاڑ اور چوپائے سبھی ہیں جیسا کہ سورة حج کے دوسرے رکوع میں ان چیزوں کا خصوصی تذکرہ ہے۔ یہاں سورة نحل میں من دابۃ یعنی زمین پر جو چیزیں چلتی پھرتی ہیں وہ سب اللہ کی فرمانبردار ہیں، پھر خاص طور پر فرشتوں کا تذکرہ فرمایا کہ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں، اور وہ تکبر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے اور اس کے قہر اور غلبہ کے سامنے اپنے اندر کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتے، سورة نساء میں فرمایا (لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ ) (مسیح اللہ کا بندہ ہونے سے ہرگز عار نہیں کریں گے اور نہ مقرب فرشتے) جتنی جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اسی قدر اس کی شان بندگی بڑھ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو جانتا اور مانتا ہے، فرشتوں کو تو بہت زیادہ معرفت حاصل ہے وہ کیوں کر عبادت گزار اور فرمانبردار نہ ہوں گے، نہ صرف یہ کہ وہ عبادت گزار اور سجدہ ریز ہیں بلکہ وہ اللہ کے عذاب سے بھی ڈرتے ہیں اور اس کے ہر حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ فائدہ : آیت شریفہ میں (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ ) فرمایا اس سجدہ سے مفسرین نے مطیع اور فرمانبردار ہونا مراد لیا ہے کیونکہ ظاہری حال میں ہر چیز سے سجدہ کا مظاہرہ نہیں ہوسکتا لیکن مخلوقات میں جو جماعتیں ذوی العقول ہیں (فرشتے اور انسان اور جن) ان کا سجدہ حقیقی بھی مراد ہوسکتا ہے اور یہ جمع بین الحقیقۃ والمجاز کے طور پر نہیں بلکہ اس طرح سے کہ جو سجدہ ریز ہیں وہ فرمانبرداری ہی کے ذیل میں سجدہ کرتے ہیں جن لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے ان لوگوں کا مومن ہونا اور پھر اپنے اختیار سے سجدہ کرنا یہ انقیاد کا اعلیٰ درجہ ہے اہل ایمان تکوینی طور پر منقاد ہیں اور تشریعی طور پر بھی ہاں جو لوگ اہل ایمان نہیں ہیں وہ تکوینی طور پر منقاد ہیں اس لیے سورة حج میں (وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ) فرمایا۔
Top