Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 4
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
خَلَقَ : پیدا کیا اس نے الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے نُّطْفَةٍ : نطفہ فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑا لو مُّبِيْنٌ : کھلا
اس نے انسان کو نطفہ سے پیدا فرمایا سو وہ یکایک واضح طور پر جھگڑا کرنے والا ہوگیا
پھر انسان کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ) (اس نے انسان کو نطفہ سے پیدا فرمایا تو یکایک وہ جھگڑالو ہوگیا واضح طور پر) انسان کو اللہ تعالیٰ نے منی کے نطفہ سے پیدا فرمایا جو انسان کے نزدیک خود ایک گندی اور ذلیل چیز ہے لیکن انسان اپنی اصل کو تو دیکھتا نہیں اور جھگڑے بازی کرتا ہے اس کا یہ جھگڑا صرف مخلوق ہی کے ساتھ نہیں خالق تعالیٰ جل مجدہ کی اخبار اور احکام میں بھی جھگڑے بازی کرتا ہے سورة یٰسین میں فرمایا (اَوَلَمْ یَرَ الْاِِنسَانُ اَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ) (کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ بلاشبہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا وہ واضح طور پر جھگڑالو ہوگیا اور اس نے ہمارے بارے میں مثل بیان کردی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا وہ کہتا ہے کہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا اس حال میں کہ وہ بوسیدہ ہوچکی ہوں گی) معالم التنزیل ص 62 میں لکھا ہے کہ ابی بن خلف مشرک ایک دن ایک بوسیدہ ہڈی لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کیا تم یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے بوسیدہ ہونے کے بعد اس کو زندہ کردے گا، اس پر آیت بالا نازل ہوئی، سبب نزول جو بھی ہو آیت بالا میں انسان کا جھگڑالو ہونا بیان فرمایا ہے۔ مشرکین اور کافرین کے جھگڑے جگہ جگہ قرآن حکیم میں نقل فرمائے ہیں اور ان کے سوالات اور کٹ حجتی کے جوابات بھی دئیے ہیں، کافر تو کافر ہیں جو لوگ نام کے مسلمان ہیں وہ بھی حجت بازی کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ شیطان کو ہمارے پیچھے کیوں لگا دیا ؟ کبھی کہتے ہیں کہ جب پہلے سے تقدیر میں لکھ دیا ہے تو ہمارا مواخذہ کیوں ہے ؟ کبھی کہتے ہیں کہ ہم نے کون سا تار بھیجا تھا کہ ہمیں پیدا کردے، کبھی کہتے ہیں اور کون شریعت پر چل رہا ہے جو ہم چلیں ؟ بعض لوگوں کو یوں بھی کہتے ہوئے سنا کہ سب نیک ہوجائیں تو دوزخ کس سے بھرے گی، بعض لوگوں سے یہ بات بھی سنی گئی ہے کہ اللہ کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں ہے ہم نے عبادت نہ کی تو کیا حرج ہے، ایسا کہنے والے وہ لوگ ہیں جو اسلام کے بھی دعوے دار ہیں اور اللہ پر اعتراض بھی کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنے سے کفر عائد ہوتا ہے۔
Top