Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا فرمائے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے طور پر، اور وہ پیدا فرماتا ہے جو تم نہیں جانتے۔
اس کے بعد سواری کے جانوروں کا تذکرہ فرمایا (وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَ زِیْنَۃً ) اللہ تعالیٰ نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا فرما دئیے تاکہ تم ان پر سوار ہو، اور ان میں تمہارے لیے زینت بھی ہے، ان تینوں قسم کے جانوروں پر سواری بھی کرتے ہیں اور خچر اور گدھے تو اپنے سوار کے ساتھ بہت سا بوجھ بھی اٹھا کرلے جاتے ہیں، یہ جانور اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے اور انسانوں کے لیے مسخر بھی فرمائے اسی کو سورة زخرف میں فرمایا (لِتَسْتَوٗا عَلٰی ظُہُوْرِہٖ ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ اِِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِِنَّآ اِِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ) (تاکہ تم ان کی پشتوں پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب ان پر بیٹھ چکو اور یوں کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا اور ہم اسے قابو میں کرنے والے نہ تھے اور بلاشبہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے) یہ جانور اللہ تعالیٰ نے مسخر فرما دئیے اگر جانور ہٹی ہوجائے اور قابو نہ دے، نہ پیار سے مانے نہ چمکار سے تب انسان کو اللہ تعالیٰ کی تسخیر کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے محض اپنے کرم سے ان جانوروں پر قابو دے دیا۔ سورة یٰسین میں یوں ارشاد فرمایا (ذَلَّلْنٰھَا لَھُمْ فَمِنْھَا رَکُوْبُھُمْ وَ مِنْھَا یَاْکُلُوْنَ ) اور ہم نے جانوروں کو ان کا فرمانبردار بنا دیا سو ان میں سے بعض سواری کے جانور ہیں اور بعض کو وہ کھاتے ہیں، گھوڑوں، خچروں اور گدھوں سے پہلے جن جانوروں کا ذکر تھا ان کے بارے میں (وَلَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ) فرمایا اور یہاں وَزِیْنَۃً فرمایا جس طرح مذکورہ مویشیوں کے آتے جاتے وقت صبح شام مالکوں کی شان و شوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اسی طرح سواری کے جانوروں سے بھی مالکوں کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ فائدہ : آیت بالا میں اجمالی طور پر چوپایوں کے منافع کا تذکرہ فرمایا پھر تفصیلاً بھی بعض منافع ذکر فرما دئیے اور سورة یٰسین میں منافع کے ساتھ مشارب کا ذکر بھی فرمایا نیز سورة نحل کے نویں رکوع میں دودھ کا بھی ذکر فرمایا ہے، یہ دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے صاف ستھرا نکل آتا ہے جسے گلے سے بآسانی اتار لیتے ہیں، جن منافع کی طرف اجمالی اشارہ فرمایا اس میں کھالیں بھی ہیں اور ہڈیاں بھی ہیں ان سے بھی انسان نفع اٹھاتے ہیں اور اب تو انسانی اعضاء کا مبادلہ بھی شروع ہوگیا ہے مثلاً کسی کا کوئی عضو خراب ہوجائے تو اسے ہٹا کر جانوروں کے اعضا لگا دئیے جاتے ہیں۔ فائدہ ثانیہ : سواریوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے (وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) بھی فرمایا (اللہ تعالیٰ وہ چیزیں پیدا فرماتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے) اس کے عموم میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جو نزول قرآن کے وقت دنیا میں موجود نہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے بعد میں پیدا فرمائیں اور آئندہ کیا کیا پیدا ہوگا اس کا علم بندوں کو نہیں، اللہ تعالیٰ شانہٗ کو ان کا بھی علم ہے چونکہ اس بات کو سواریوں کے ذیل میں ذکر فرمایا ہے اس لیے بعض اکابر نے نو ایجاد سواریوں کے بارے میں فرمایا کہ ہوائی جہاز اور ریل اور موٹر کار وغیرہ ان سب کا وجود میں آنے کی طرف آیت شریفہ میں اشارہ ملتا ہے بلکہ قیامت تک جتنی بھی سواریاں ایجاد ہوں گی عموم الفاظ میں ان سب کی خبر دے دی گئی ہے۔
Top