Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 97
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً١ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَنْ : جو۔ جس عَمِلَ : عمل کیا صَالِحًا : کوئی نیک مِّنْ ذَكَرٍ : مرد ہو اَوْ : یا اُنْثٰى : عورت وَهُوَ : جبکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَلَنُحْيِيَنَّهٗ : تو ہم اسے ضرور زندگی دیں گے حَيٰوةً : زندگی طَيِّبَةً : پاکیزہ وَ : اور لَنَجْزِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں دیں گے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہت بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
، جس کسی مرد یا عورت نے نیک عمل کیا اس حال میں کہ وہ مومن ہے تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی دیں گے، اور ان کے اچھے کام کے عوض ہم انہیں ان کا اجر ضرور دیں گے
فرمایا (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی) (الآیۃ) کہ جو بھی کوئی مرد ہو یا عورت اچھا عمل کرے گا اسے ہم حیات طیبہ (اچھی زندگی) دیں گے، اس میں ایک قانون بتادیا جس میں ہر نیک عمل پر ہر مومن مرد و عورت کے لیے حیات طیبہ کا اور اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ حیات طیبہ ” اچھی زندگی “ سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں علامہ قرطبی نے پانچ اقوال نقل کیے ہیں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس سے قناعت مراد ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے طاعات کی توفیق دینا مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ بنتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں (مَقْعَدِ صِدْقٍ ) نصیب ہونا مراد ہے، ان اقوال کے بعد دو قول اور لکھے ہیں ایک یہ کہ بندہ مخلوق سے بےنیاز ہوجائے اور ہر حال میں اپنے کو حق تعالیٰ شانہ ہی کا محتاج بنائے، دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے رضا بالقضاء مراد ہے۔ ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے بات یہ ہے کہ مومن بندوں کی دنیا والی زندگی بھی اچھی ہوتی ہے سکون و اطمینان سے رہتے ہیں، اگر کوئی پریشانی اور تنگدستی بھی ہو تو اس کی وجہ سے انہیں گھبراہٹ نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں منہمک رہتے ہیں بلکہ فقر و فاقہ اور بیماری سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کفار و فجار کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان پر دنیاوی مصائب آتے ہیں تو بلبلا اٹھتے ہیں مال کی حرص میں رات دن تگ و دو میں لگے رہتے ہیں باطن کو سکون نہیں ہوتا مومن بندوں کو حیات طیبہ دنیا میں حاصل ہے اور آخرت میں جب جنت میں جائیں گے اور اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہوں گے جو دائمی ہوں گی ان کا تو ذکر ہی کیا ہے ان کی تو کوئی مثال ہی نہیں۔ اس میں جو (وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ) فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ حیات طیبہ دنیاوی و اخروی انہی مومن بندوں کے لیے ہے جو حالت ایمان میں عمل صالح کرتے ہوں حالت کفر کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں۔ اور (مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی) فرما کر یہ بتادیا کہ اعمال صالحہ کا اجر وثواب مردوں کو بھی ملے گا اور عورتوں کو بھی۔
Top