Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
وَاخْفِضْ : اور جھکا دے لَهُمَا : ان دونوں کے لیے جَنَاحَ : بازو الذُّلِّ : عاجزی مِنَ : سے الرَّحْمَةِ : مہربانی وَقُلْ : اور کہو رَّبِّ : اے میرے رب ارْحَمْهُمَا : ان دونوں پر رحم فرما كَمَا : جیسے رَبَّيٰنِيْ : انہوں نے میری پرورش کی صَغِيْرًا : بچپن
اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں عرض کرنا کہ اے رب ان پر رحم فرمائیے جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹا سا پالا ہے
ششم : ارشاد فرمایا (وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ ) (یعنی ماں باپ کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا) اس کی تفسیر میں حضرت عروہ نے فرمایا کہ تو ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ ان کی جو دلی رغبت ہو اس کو پورا ہونے میں تیری وجہ سے فرق نہ آئے، اور حضرت عطاء بن ابی رباح نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ماں باپ سے بات کرتے وقت نیچے اوپر ہاتھ مت اٹھانا (جیسے برابر والوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے اٹھاتے ہیں) اور حضرت زہیر بن محمد نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ماں باپ اگر تجھے گالیاں دیں اور برا بھلا کہیں تو تو جواب میں یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت فرمائے۔ (درمنثور) ہفتم : یہ نصیحت فرمائی کہ ماں باپ کے لیے یہ دعا کرتے رہا کرو (رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا) (کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹے سے کو پالا اور پرورش کیا) بات یہ ہے کہ کبھی اولاد حاجت مند تھی جو بالکل ناسمجھ اور ناتواں تھی، اس وقت ماں باپ نے ہر طرح کی تکلیف سہی اور دکھ سکھ میں خدمت کرکے اولاد کی پرورش کی، اب پچاس ساٹھ سال کے بعد صورت حال الٹ گئی کہ ماں باپ خرچ اور خدمت کے محتاج ہیں اور اولاد کمانے والی ہے، روپیہ پیسہ، اور گھر بار اور کاروبار والی ہے، اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی خدمت سے نہ گھبرائے اور ان پر خرچ کرنے سے تنگ دل نہ ہو، دل کھول کر جان و مال سے ان کی خدمت کرے اور اپنے چھوٹے پن کا وقت یاد کرے اس وقت انہوں نے جو تکلیفیں اٹھائیں، ان کو سامنے رکھے، اور بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کرے کہ ” اے میرے رب ان پر رحم فرما “ جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹے پن میں پالا اور پرورش کی۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ کو کمر پر اٹھائے ہوئے طواف کرا رہا تھا اس نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا کہ کیا میں نے اس طرح خدمت کرکے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ؟ آپ نے فرمایا ایک سانس کا حق بھی ادا نہیں ہوا (تفسیر ابن کثیر ص 35 ج 3) عن مسند البزار بسند فیہ ضعف، واخرجہ البخاری فی الادب المفرد موقوفا علی ابن عمر
Top