Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 64
وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاسْتَفْزِزْ : اور پھسلا لے مَنِ : جو۔ جس اسْتَطَعْتَ : تیرا بس چلے مِنْهُمْ : ان میں سے بِصَوْتِكَ : اپنی آواز سے وَاَجْلِبْ : اور چڑھا لا عَلَيْهِمْ : ان پر بِخَيْلِكَ : اپنے سوار وَرَجِلِكَ : اور پیادے وَشَارِكْهُمْ : اور ان سے ساجھا کرلے فِي : میں الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَوْلَادِ : اور اولاد وَعِدْهُمْ : اور وعدے کر ان سے وَمَا يَعِدُهُمُ : اور نہیں ان سے وعدہ کرتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ
اور ان میں سے جس جس پر تیرا قابو چلے اپنی پکار سے ان کے قدم اکھاڑ دینا اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لانا اور ان کے اموال اور اولاد میں اپنا ساجھا کرلینا اور ان سے وعدے کرنا، اور شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے وہ صرف دھوکہ ہی ہوتے ہیں،
اللہ جل شانہ نے مزید فرمایا (وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ ) کہ تجھ سے جو کچھ ہوسکے اپنی کوشش کرلینا ان کے بہکانے اور ورغلانے کے لیے آواز لگانا ان پر سوار اور پیادے چڑھا کرلے آنا (اور عرب کا محاورہ تھا جب کسی پر پوری قوت کے ساتھ کوئی شخص حملہ آور ہوتا تو کہا جاتا تھا کہ اس نے اپنے سوار اور پیادے لیکر چڑھائی کردی) تفسیر قرطبی میں اول تو یہ معنی لکھا ہے اجمع علیھم کلما تقدر علیھم من مکائدک یعنی جتنے بھی فریب اور مکر تجھ سے ہوسکیں سب کو اختیار کرلینا اور پھر ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جو بھی گھوڑے اللہ کی معصیت میں چلیں اور جو بھی قدم اللہ کی نافرمانی میں اٹھے اور جو بھی حرام مال مل جائے اور جو بھی حرام کی اولاد ہو سب شیطانی چیزیں ہیں۔ قال الراغب فی مفرداتہ قولہ تعالیٰ (لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا) یجوزان یکون من قولھم حنکت الدابۃ اصبت حنکھا باللجام والرسن فیکون نحو قولک لالجمن فلانا ولارسننہ ویجوز ان یکون من قولھم احتنک الجراد الارض ای استولی بحن کہ علیھا فاکلھا واستاصلھا فیکون معناہ علیھم استیلاۂ علی ذلک۔ فی روح المعانی واستفززای واستخف یقال استفزہ اذا استخفہ فخدعہ واوقعہ فیما ارادہ منہ 1 ھ۔ وفی تفسیر القرطبی واستفززای استزل واستخف واصلہ القطع والمعنی استزلہ بقطعک ایاہ عن الحق۔ علامہ قرطبی اپنی تفسیر (ج 1/ 288) (وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ ) کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ وہ آواز جو اللہ کی نافرمانی کی طرف بلائے وہ سب شیطان کی آواز ہے۔ اور حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد ؓ سے نقل کیا ہے کہ گانا بجانا اور گانے بجانے کی آوازیں یہ سب شیطان کی آوازیں ہیں لوگوں کو بہکانے اور ورغلانے اور راہ حق سے ہٹانے اور نماز و ذکر سے غافل کرنے کے طریقے جو شیطان اختیار کرتا ہے ان میں گانا بجانا بھی ہے جن لوگوں کو شیطانی کام پسند ہوتے ہیں ان کو گانے بجانے سے بہت محبت ہوتی ہے اور شیطانی کاموں میں ایسی چیزوں کی بہتات ہوتی ہے ہندوؤں کے مندروں اور عیسائیوں کے گرجوں میں گانا بجانے کی چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جب کوئی مداری تماشا دکھاتا ہے تو گانے بجانے سے شروع کرتا ہے سینماؤں میں اور ٹیوی پر اور ریڈیو پر گانے بجانے کے پروگرام آتے رہتے ہیں لوگ ان سے بہت خوش ہیں بچے بوڑھے جوان سب ہی گانے بجانے کے دلدادہ بن جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ راتوں رات جاگتے ہیں اور قوالی سنتے ہیں جس میں ہارمونیم وغیرہ استعمال ہوتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ یوں کہتے ہیں کہ قوالی کی محفل میں شریک ہونا ثواب ہے کیونکہ اس میں نعتیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں خدارا انصاف کریں کہ یہ راتوں کا جاگنا (پھر صبح کو فجر کی نماز ضائع کردینا) نعت نبی ﷺ سننے کے لیے ہے یا نفس کو ساز اور ہارمونیم کے ذریعے حرام غذا دینے کے لیے اور شیطان کو خوش کرنے کے لیے ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا امرنی ربی بمحق المغازف والمزامیر والاوثان والصلب وامر الجاھلیہ (مشکوٰۃ المصابیح ص 318) یعنی میرے رب نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ گانے بجانے کے آلات کو اور بتوں کو اور صلیب کو (جسے عیسائی پوجتے ہیں) اور جاہلیت کے کاموں کو مٹا دوں۔ کیسی نادانی کی بات ہے کہ حضور اقدس ﷺ جن چیزوں کو مٹانے کے لیے تشریف لائے ان ہی چیزوں کو حضور اقدس ﷺ کی نعت سننے کے لیے استعمال کرتے ہیں پھر اوپر سے ثواب کی امید بھی رکھتے ہیں نفس و شیطان نے ایسا غلبہ پایا ہے کہ قرآن و حدیث بتانے والوں کی بات ناگوار معلوم ہوتی ہیں۔ مزید فرمایا (وَشَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ ) (اور ان کے اموال میں شریک ہوجا) اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تو بنی آدم کو اس پر ابھارنا کہ وہ حرام مال کمائیں اور حرام مواقع میں یعنی اللہ کی نافرمانیوں میں مال خرچ کریں اور اگر حلال مال کمالیں تو اسے اللہ کی نافرمانی میں خرچ کردیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی باتیں سمجھانا کہ وہ تیرے کہنے کے مطابق اپنے اموال میں تحریم اور تحلیل اختیار کریں جیسے مشرکین عرب نے مویشیوں میں بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دے رکھا تھا اور بعض جانوروں کو اپنے باطل معبودوں کے نام پر ذبح کرتے تھے چونکہ شیطان کی تلقین اور تعلیم سے ایسا کرتے تھے اس لیے یہ سب مال شیطان کے حساب میں لگ گیا اور وہ ان مالوں میں ساجھی ہوگا۔ (وَالْاَوْلَادِ ) (یعنی تو ان کی اولاد میں شریک ہوجانا) اولاد میں شریک ہونے کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے دو باتیں منقول ہیں ایک تو یہ کہ وہ تیرے کہنے سے اپنی اولاد کو قتل کریں گے اور اولاد کے بارے میں ایسے ایسے اعمال کریں گے جو اللہ کی شریعت میں معاصی میں شمار ہونگے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے عبد الحارث عبد العزیٰ عبد اللات اور عبد الشمس وغیرہ نام رکھنا مراد ہے۔ حضرت قتادہ ؓ نے فرمایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تو بنی آدم کی اولاد کو شرک اور کفر پر ڈال دینا یعنی ماں باپ کو ایسی باتیں سمجھانا کہ وہ اپنی اولاد کو کفر سمجھائیں اور پڑھائیں اور اس پر جمائیں۔ اور حضرت مجاہد ؓ نے یوں فرمایا کہ جب کوئی شخص عورت سے جماع کرنے لگے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو جن اس کے عضو خاص کے ساتھ لپٹ جاتا ہے اور اس کے ساتھ اجماع کرتا ہے (اس سے جو اولاد پیدا ہوگی اس میں شیطان کی شرکت ہوجائے گی کیونکہ انسانی مرد کے نطفے کے ساتھ اس کا نطفہ بھی رحم میں چلا گیا) یہ اقوال علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیے ہیں۔ (ج 2/ 89) حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے سوال فرمایا کیا تمہارے اندر مغربون دیکھے گئے ہیں میں نے عرض کیا مغربون کون ہیں ؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن میں جنات شریک ہوجاتے ہیں شریک ہونے کا ایک مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا اور ملا علی قاری ؓ نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں ایک اور مطلب بھی لکھا ہے کہ شیاطین انسانوں کو زنا کرنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس زنا سے جو اولاد ہوتی ہے وہ چونکہ حرامی ہوتی ہے اس کا وجود اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے یوں ہی ہوتا ہے کہ وہ زنا پر ابھارتا ہے اس لیے اس اولاد میں اس کی شرکت ہوگی۔ (مرقاۃ ج 8/ 367) آکام المرجان ج 1/ 77 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مخنث (پیدائشی ہیجڑے) جنات کی اولاد ہوتے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کیا گیا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے حالت حیض میں جماع کرنے سے منع فرمایا ہے سو اگر کوئی شخص حالت حیض میں جماع کرلے تو اس سے پہلے شیطان جماع کرلیتا ہے پھر اس سے جو حمل ہوجاتا ہے اس سے مخنث پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے (یعنی جماع کرنا چاہے) اور اس سے پہلے یہ پڑھے۔ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا (میں اللہ کا نام لے کر یہ کام کرتا ہوں اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اور جو اولاد تو ہم کو دے اس سے (بھی) شیطان کو دور رکھ) تو اس دعا کے پڑھ لینے کے بعد اس وقت ہمبستری سے جو اولاد پیدا ہوگی شیطان اسے کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم) یہ جو فرمایا کہ اگر مذکورہ بالا دعا پڑھ لی جائے اور اس وقت کا جماع حمل قرار ہونے کا ذریعہ بن جائے تو اس سے جو اولاد پیدا ہوگی اسے شیطان کبھی ضرر نہ دے سکے گا۔ حدیث کی شرح لکھنے والوں نے اس کے کئی معنی لکھے ہیں ان میں سے ایک مطلب یہ ہے کہ بچہ مرگی سے اور دیوانگی سے محفوظ رہے گا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ شیطان اس نومولود کے دین پر حملہ نہ کرسکے گا اس کی زندگی مسلمانوں والی ہوگی اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح) پھر فرمایا (وَعِدْھُمْ ) یہ بھی ابلیس کو خطاب ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو بنی آدم سے وعدے کرنا مثلاً یہ بتانا کہ باطل معبود سفارش کردیں گے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کیے بغیر نسب سے کام چل جائے گا اور یہ کہ کافر مشرک کا داخلہ دوزخ ہمیشہ کے لیے نہ ہوگا اور یہ کہ دنیا کی زندگی بہت بڑی ہے اس میں لگے رہو بڑھاپے میں اعمال صالحہ کو دیکھا جائے گا اور یہ کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا نہیں ہے (وغیرہ وغیرہ) ۔ ضروری نہیں کہ شیطان سب سے ایک ہی قسم کے وعدے کرتا ہو جس طرح موقعہ دیکھتا ہے الگ الگ وعدے کرتا ہے امیدیں دلاتا ہے اور راہ حق سے ہٹاتا ہے کافروں کے بہکانے اور کفر پر جمائے رکھنے کے طریقے اور ہیں اور اہل ایمان کو ایمان سے ہٹانے اور فرائض و واجبات سے غافل رکھنے اور اعمال صالحہ سے دور رکھنے کے طریقے دوسرے ہیں۔ (وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا) ابھی سلسلہ خطاب جاری ہے یہ جملہ معترضہ ہے مطلب یہ کہ بنی آدم سے شیطان جو بھی وعدے کرتا ہے اس کے یہ سب وعدے صرف دھوکے کے وعدے ہیں بنی آدم اس کی طرف سے چوکنے رہیں۔
Top