Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠ ۧ
وَاَمَّا
: اور رہی
الْجِدَارُ
: دیوار
فَكَانَ
: سو وہ تھی
لِغُلٰمَيْنِ
: دو بچوں کی
يَتِيْمَيْنِ
: دو یتیم
فِي الْمَدِيْنَةِ
: شہر میں۔ کے
وَكَانَ
: اور تھا
تَحْتَهٗ
: اس کے نیچے
كَنْزٌ
: خزانہ
لَّهُمَا
: ان دونوں کے لیے
وَكَانَ
: اور تھا
اَبُوْهُمَا
: ان کا باپ
صَالِحًا
: نیک
فَاَرَادَ
: سو چاہا
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ يَّبْلُغَآ
: کہ وہ پہنچیں
اَشُدَّهُمَا
: اپنی جوانی
وَيَسْتَخْرِجَا
: اور وہ دونوں نکالیں
كَنْزَهُمَا
: اپنا خزانہ
رَحْمَةً
: مہربانی
مِّنْ رَّبِّكَ
: سے تمہارا رب
وَمَا فَعَلْتُهٗ
: اور یہ میں نے نہیں کیا
عَنْ
: سے
اَمْرِيْ
: اپنا حکم (مرضی)
ذٰلِكَ
: یہ
تَاْوِيْلُ
: تعبیر (حقیقت)
مَا
: جو
لَمْ تَسْطِعْ
: تم نہ کرسکے
عَّلَيْهِ
: اس پر
صَبْرًا
: صبر
اور رہی دیوار تو اس کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اس شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا، سو تیرے رب نے ارادہ فرمایا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں یہ تیرے رب کی مہربانی کی وجہ سے ہے۔ اور یہ کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیے، یہ ہے ان باتوں کی حقیقت جن پر تم صبر نہ کرسکے
دیوار کو سیدھا کردینے کی وجہ اب رہی دیوار کی بات تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بچوں کی دیوار تھی یہ بچے یتیم تھے اور دیوار کے نیچے خزانہ تھا اگر دیوار گر پڑتی تو شہر والے ان کا خزانہ لے اڑتے اور وہ دونوں اپنے باپ کی میراث سے محروم ہوجاتے اور تنگدستی کا شکار ہوجاتے، اول تو یہ بچے یتیم تھے دوسری نیک آدمی کی اولاد تھے تو یوں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی ضرورت تھی لہٰذا ہم نے دیوار کو کھڑا کردیا تاکہ بالغ ہوجائیں تو اپنا خزانہ نکال لیں اللہ تعالیٰ شانہ نے ان دونوں یتیموں پر رحم فرمایا اور گرنے والی دیوار کو سیدھا کھڑا کروا دیا۔ اگر شہر کے بالغ لوگوں نے ہمیں کھانے کے لیے کچھ نہ دیا تو اس کا بدلہ ان یتیموں سے تو نہیں لینا چاہیے تھا۔ ان کا کام تو بغیر اجرت لیے ہوئے ہی کرنا تھا۔ تینوں باتوں کی حقیقت بتا کر حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا (وَ مَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ) یہ جو کچھ میں نے کیا ہے اپنی رائے سے نہیں کیا (اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ سے یہ کام لیے گئے) (ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا) (یہ حقیقت ہے ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہ کرسکے) فوائد و مسائل (1) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو سائل کے جواب میں یوں فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں اور اس اعتبار سے ان کا فرمانا صحیح بھی تھا کہ وہ صاحب شریعت تھے ایک بہت بڑی قوم کے نبی تھے ان پر تورات شریف نازل ہوئی تھی لیکن الفاظ میں چونکہ ایک قسم کا دعویٰ ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص کتنا ہی زیادہ عالم ہو اور حالات ظاہرہ کے اعتبار سے اس سے زیادہ کوئی دوسرا جاننے والا نہ ہو تب بھی اسے یہ نہ کہنا چاہیے کہ میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اس میں ایک تو دعویٰ ہے جو کاملین کی شان کے خلاف ہے دوسرے ہوسکتا ہے کہ اور شخص بھی اتنا بڑا یا اس سے بڑا عالم ہو جس کی اسے خبر نہ ہو۔ (خواہ اس کے اپنے علوم کے علاوہ دوسرے ہی علوم کا ماہر ہو۔ ) (2) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے جوان یعنی حضرت یوشع بن نون کو ساتھ لے کر چلے جو ان کے خادم تھے اس سے معلوم ہوا کہ کسی اپنے چھوٹے کو خدمت کے لیے ساتھ لینا اور کوئی خدمت سپرد کرنا درست ہے یوں بھی تنہا سفر کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ کے خادموں میں حضرت انس ؓ مشہور ہیں جنہوں نے دس سال آپ کی خدمت کی۔ (3) معلوم ہوا کہ طلب علم کے لیے سفر کرنا چاہیے اور یہ کہ معلم کو اپنے پاس بلانے کی فکر نہ کرے بلکہ اس کے پاس خود جائے۔ امام بخاری ؓ نے کتاب العلم میں باب الخروج فی طلب العلم کے ذیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا واقعہ لکھا ہے اور لکھا ہے احل جابر بن عبد اللّٰہ سیرۃ شھر الی عبد اللّٰہ ابن انیس فی حدیث واحد (اور جابر بن عبد اللہ ؓ حضرت عبد اللہ بن انیس ؓ صحابی کے پاس ایک حدیث لینے کے لیے ایک ماہ کا سفر کرکے گئے۔ ) (4) طلب علم کے لیے کوئی عمر مخصوص نہیں گو بچپن اور جوانی میں علم اچھی طرح حاصل ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں بھی اس سے بےنیاز نہیں ہونا چاہیے علم صحیح جہاں ملے، جب ملے، اور جس سے ملے حاصل کرنا چاہیے۔ امام بخاری باب الاعتبار فی العلم والحکمۃ کے ذیل میں لکھتے ہیں۔ وقد تعلم اصحاب النبی بعد کبرسنھم) (کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ نے بڑی عمریں ہوجانے کے بعد علم حاصل کیا ہے۔ ) (5) اگر کسی کو کسی بھی اعتبار سے کوئی فضیلت حاصل ہو اور اسے اپنے سے کم فضیلت والے کے پاس کوئی علم کی بات ملتی ہو تو اس میں عار نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس اس علم کے حاصل کرنے کے لیے تشریف لے گئے جو ان کے اپنے علم کے علاوہ تھا۔ (6) طلب علم کے لیے سفر کرنے میں سستی اور کوتاہی اختیار نہ کی جائے جتنا بھی بڑا سفر ہو برداشت کیا جائے اور اس پر جو تکلیف پہنچے اسے برداشت کیا جائے آیت کریمہ میں جو لفظ (اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا) فرمایا ہے۔ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ لفظ اسی (80) سال کی مدت کے لیے بولا جاتا ہے اور حضرت حسن سے نقل ہے کہ یہ لفظ ستر سال کی مدت کے لیے آتا ہے اور فراء نے کہا ہے کہ یہ قریش کی لغت میں ایک سال کے لیے استعمال ہوتا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ مطلق دہر کے لیے استعمال ہوتا ہے یہ سب اقوال تو صاحب روح المعانی نے نقل کردئیے لیکن ترجمہ یوں لکھا ہے۔ والمعنی حتی یقع اما بلوغی الجمع او امضی حقباً ای سیری زمانا طویلا ہم نے بھی اس کے مطابق ترجمہ کردیا کہ یا میں زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا۔ (7) صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں یوں فرما دیا کہ میں اپنے سے زیادہ بڑھ کر کسی کو عالم نہیں جانتا۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا بلی عبدنا الخضر (ہاں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ جاننے والا ہے) اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا نام موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے ہی بتادیا گیا تھا۔ (8) لفظ خضر کا معنی ہے سرسبز ان کا یہ نام کیوں مشہور ہوا اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کا نام خضر اس لیے رکھا گیا کہ وہ ایک جگہ بیٹھے جو خشک چٹیل میدان پڑی ہوئی تھی وہ اس پر بیٹھ گئے تو ان کے پیچھے زمین پر سبزی نکل کر لہلہانے لگی۔ (صحیح بخاری صفحہ 483 ج 1) (9) اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا تھا کہ ہمارا یہ بندہ مجمع البحرین میں ملے گا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے بحر فارس اور بحر روم کے ملنے کی جگہ مراد ہے۔ (10) جس جگہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اس کے لیے کسی نشانی کی ضرورت تھی جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے نشانی کا سوال کیا تو ارشاد فرمایا ایک مچھلی لے لو جس جگہ وہ مچھلی گم ہوجائے اور تمہیں چھوڑ کر چلی جائے وہ صاحب تمہیں وہیں ملیں گے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ یہ مچھلی انہوں نے بطور زادراہ کے لی تھی۔ وہ بےجان تھی جس پر نمک لگایا ہوا تھا (فی مسلم فقیل لہ تزود حوتا مالحاً صفحہ 270 ج 2) مچھلی ساتھ لینے سے معلوم ہوا کہ سفر میں توشہ ساتھ لے جانا توکل کے خلاف نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے خادم حضرت یوشع کے ساتھ چلتے رہے اور تھکن محسوس نہیں کی پھر جب اس جگہ سے آگے بڑھ گئے جہاں تک پہنچنا مقصود تھا تو تھکن محسوس کی، طبعی طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ بات رکھی ہے کہ مقصد کے پہنچنے تک اس میں ہمت اور حوصلہ رہتا ہے اور تھکن محسوس نہیں کرتا جب مقصد کو پہنچ جاتا ہے تو تھکن کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے خیال میں مقصد تک نہیں پہنچے تھے لیکن حقیقت میں جائے مقصود پر پہنچ کر آگے بڑھ گئے تھے اس لیے طبعی طور پر ہمت جواب دینے لگی اور تھکن محسوس فرمالی۔ ولم یجد النصب حتی جاوز المکان الذی امر اللّٰہ بہ۔ (11) چونکہ سفر کی مزید تکلیف اٹھانا مقدر میں تھا اس لیے حضرت یوشع بن نون یہ دیکھنے کے باوجود کہ مچھلی پانی میں چلی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتانا بھول گئے شیطان تو پیچھے لگا ہی رہتا ہے اس نے انہیں بھلا دیا۔ مقصد سے آگے بڑھ کر جو زائد سفر تھا اس کو قطع کرنا پھر وہاں سے واپس ہونے کی تکلیف اٹھانا تقدیر میں تھا لیکن اس پر اجر وثواب بھی مل گیا۔ مخلص نیک نیت مومن کا نقصان نہیں ہوتا مومن بندہ کو نعمت اور آرام میں بھی نفع ہے اور دکھ تکلیف میں بھی فائدہ ہے اللہ کی رضا کا خواہاں ہو۔ ثواب کی نیت رکھتا ہو۔ حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) نے بتایا کہ دریا میں چلے جانے والی بات بتانا بھول گیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو ملامت نہیں کی کہ دیکھو تمہاری وجہ سے ہمیں تکلیف پہنچی۔ چونکہ بھول ہوگئی تھی اس لیے درگزر فرمایا۔ (12) جب واپس ہو کر پھر اسی جگہ آئے جہاں مچھلی دریا میں چلی گئی تھی تو ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ چادر اوڑھے ہوئے لیٹے ہیں۔ یہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کیا اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی مومن بندہ سے ملاقات ہو اور اپنی طرف متوجہ کرنا ہو تو پہلے سلام کرے حدیث میں ہے۔ السلام قبل الکلام (مشکوٰۃ صفحہ 390) (13) حضرت خضر (علیہ السلام) سے تعارف ہوگیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا مطلب ظاہر کیا کہ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ مجھے ان علوم کا کچھ حصہ معلوم ہوجائے جو آپ کو عطا کیے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جس سے جتنا علم ملے لے لینا چاہیے ضروری نہیں کہ کسی شیخ کے سارے ہی علم کو سمیٹ لے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) علم شریعت کے ماہر تھے علم الاسرار کے جاننے کے لیے سفر کیا اور اس کے سیکھنے کی خواہش ظاہر کی معلوم ہوا کہ علم اسرار بھی لائق توجہ ہے اگرچہ مدار نجات علم شرائع ہی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب استاد سے علم حاصل کرنے کی درخواست کرے تو اس میں ادب کا لحاظ رہے اور اس انداز میں بات کرے کہ شیخ کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ مجھ پر کوئی زبردستی کر رہا ہے، حضرت موسیٰ نے (ھَلْ اَتَّبِعُکَ ) فرمایا (کیا میں تمہارے ساتھ رہ سکتا ہوں) اور یوں نہیں فرمایا کہ مجھے سکھا دیجیے اور میں بہت دور سے چل کر آیا ہوں آپ کو میری طرف متوجہ ہونا ہی پڑے گا۔ (14) شیخ کو چاہیے کہ وہ آنے والے کو پہلے یہ بتادے کہ ممکن ہے ہمارا تمہارا نباہ نہ ہوسکے، ہمارا طریق اور ہمارا مزاج یہ ہے اس کی موافقت کرسکو گے یا نہیں اس پر اگر طالب علم شیخ کے ماحول اور مزاج کے مطابق چلنے کا وعدہ کرے (جو شرعاً درست ہو) تو ساتھ رکھ لے۔ اور شاگرد جب وعدہ کرے کہ میں آپ کے مزاج اور مرضی کے مطابق رہوں گا تو خود اعتمادی نہ کرے بلکہ خدا اعتمادی کرے یعنی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور انشاء اللہ بھی ساتھ لگا دے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا (شیخ شریعت ہو یا صاحب طریقت یہ آداب دونوں کے لیے ہیں۔ ) (15) شیخ کو اختیار ہے کہ طالب سے کوئی شرط لگا لے، اور جب طالب اس شرط کے مطابق چلنے کا اقرار کرے تو اسے پوری کرے ہاں اگر بھول جائے تو دوسری بات ہے، اور جب بھولنے سے کوئی خلاف ورزی ہوجائے تو عذر بیان کردے اور مسامحت کی درخواست کردے۔ کما قال موسیٰ (علیہ السلام) لاَ تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ ۔ (16) اتباع شیخ کا وعدہ کرنے کے باوجود اگر کوئی ایسی چیز دیکھے جو اپنے نزدیک بالکل ہی شریعت کے خلاف ہے تو شیخ کو متنبہ کردے موسیٰ (علیہ السلام) پہلی بار تو بھول گئے تھے اور دوسری بار قصداً و عمداً جانتے ہوئے لڑکے کے قتل پر اعتراض کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہی شروط اور عہود قابل ایفاء ہیں جن کے پورا کرنے سے شریعت کی کوئی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو خاموشی کا وعدہ کرنے کے باوجود دینی حمیت نے انہیں خاموش نہ رہنے دیا حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ گویا کہ انہوں نے ان کے ساتھ چلنے اور دیگر امور میں صبر کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ تھا ہی نہیں کہ جو چیز ظاہری طور پر شریعت کے خلاف ہوگی اس کے بارے میں نہ بولوں گا۔ وکان المراد بالصبر انہ صبر عن اتباعہ والمشی معہ وغیر ذلک لا الانکار علیہ فیما یخالف ظاھر الشرع۔ (صفحہ 418 ج 1) ہاں بات کہنے میں جلدی نہ کر۔ جب تک اس کا خلاف شرع ہونا خوب واضح نہ ہوجائے اس وقت تک سکوت کرنا چاہیے۔ (17) طالب علم سے غلطی ہوجائے تو شیخ تنبیہ کردے پھر غلطی ہوجائے تو پھر تنبیہ کردے اور تنبیہ میں طالب کی کوتاہی کے بقدر الفاظ تنبیہ اختیار کرے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے پہلی بار الم اقل فرمایا اور دوسری بار الم اقل لک فرمایا جس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ میں نے جو اب سے پہلے کہا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے وہ آپ ہی سے کہا تھا اور کسی سے تو نہیں کہا پھر اس کا دھیان کیوں نہیں رکھا۔ (18) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یوں فرمایا کہ اگر آپ سے میں کوئی بات دریافت کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیے اس سے معلوم ہوا کہ جب ساتھ رہنے کی صورت بنتی نظر نہ آئے تو خوبصورتی سے جدا ہونے کی صورت نکال لے لیکن یوں نہ کہے کہ میں جاتا ہوں بلکہ شیخ کو اختیار دے دے کہ آپ چاہیں تو مجھے ساتھ نہ رکھیں اور طبیعتوں کا میل نہ ملنے میں اگر اپنا قصور ہو تو طالب علم صاف اقرار کرے اور اپنے ہی اوپر لے شیخ پر بات نہ رکھے کما قال موسیٰ (علیہ السلام) قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا۔ (19) اگر شیخ کسی طالب کو اپنے سے جدا کرنے لگے اور اسے معلوم ہو کہ طالب کو میرے فلاں فلاں عمل پر اعتراض ہے اور حقیقت میں وہ قابل اعتراض نہیں تو طالب کو حقیقت حال بتادے اور واقعی صورتحال سمجھا دے تاکہ طالب علم اس غلط فہمی میں ہوتے ہوئے جدا نہ ہو کہ شیخ کے اعمال اچھے نہ تھے۔ اگر ایسا ہوگا تو ممکن ہے وہ دوسری جگہ بھی ان باتوں کا چرچا کرے اور خود بھی غیبت میں مبتلا ہو اور دوسروں کی نظروں میں بھی شیخ کا وقار گرے اور ان کی طرف طالبین کے رجوع ہونے کی بلاوجہ کمی آجائے۔ (20) حضرت خضر (علیہ السلام) کے طریقہ کار سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواہ مخواہ اپنے کو مطعون بنانا کوئی دینداری اور سمجھ داری کی بات نہیں۔ اپنی پوزیشن صاف رکھنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص نادانی سے اس کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جس سے بدنامی ہوتی ہو تو اپنی صفائی دیدے۔ یہ بات کہہ کر گزر جانا کہ ہمارا کیا حرج ہے۔ فیما بیننا و بین اللّٰہ ہمارا حال ٹھیک ہے کوئی بدگمانی اور بد فہمی سے ہمیں کچھ کہتا ہے تو وہ ذمہ دار ہوگا عامۃ المسلمین کی خیر خواہی کے خلاف ہے۔ سب مسلمانوں کی خیر خواہی پیش نظر رہنی چاہیے اپنا حال بھی درست ہو اور دوسروں کو بھی غیبت سے بچائے۔ (21) (اِسْتَطْعَمَآ اَھْلَھَا) سے معلوم ہوا کہ مجبوری کے وقت کسی سے کھانا طلب کرنا بھی جائز ہے۔ (22) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا کہ آپ چاہتے تو کچھ اجرت لے لیتے اس سے معلوم ہوا کہ کسی عمل پر اجرت لینا بھی درست ہے۔ (23) حضرت خضر (علیہ السلام) نے جو بستی والوں کی دیوار کھڑی کردی حالانکہ انہوں نے کھانے تک کو نہ پوچھا اور نہ سوال کرنے پر کچھ دیا اس میں جہاں دو یتیم بچوں کے خزانے کی حفاظت پیش نظر تھی وہاں اخلاق عالیہ کا اختیار کرنا بھی تھا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ وہ کمینے لوگ تھے حتی اذا اتیا اھل قریۃ لئامٍ صفحہ 271 ج 2 کمینوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنا اہل خیر کا طریقہ ہے۔ بدی را بدی سہل باشد جزاء اگر مردی احسن الی من اساء (24) یہ بھی معلوم ہوا کہ کشتی میں اجرت پر مسافروں کو ادھر سے ادھر لے جانا جائز ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص مسکین ہو اور اس کے پاس کسب کا کوئی آلہ ہو یا کوئی بھی چیز ہو جو اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو تو وہ مسکنت سے نہیں نکلتا یعنی اسے مسکین ہی کہا جائے گا مسکین ہی مانا جائے گا۔ (25) معلوم ہوا کہ کسی کا مال غصب کرنا حرام ہے اور جس کسی ظالم سے خطرہ ہو کہ وہ غریب آدمی کا مال چھین لے گا تو اس کے شر کو دفع کرنے کے لیے تدبیر کرنا ثواب کا کام ہے۔ (26) یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک آدمی کی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا خیال رکھنا چاہیے۔ (اسی وجہ سے حضرات مشائخ اپنے مشائخ کی اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے لیے فکر مند رہتے ہیں اگرچہ اولاد کے وہ احوال نہیں ہوتے جو ان کے آباؤ اجداد کے تھے۔ ) (27) حضرت خضر (علیہ السلام) نے جو تین کام کیے ان میں لڑکے کو قتل کردینا سب سے زیادہ سنگین تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے فی صحیح مسلم فزع موسیٰ (علیہ السلام) فزعۃ منکرۃ اور جب ان کے اعتراض کرنے پر حضرت خضر (علیہ السلام) نے تنبیہ فرمائی تو سمجھ لیا کہ ہمارا ان کے ساتھ ہونا مشکل ہے اور صاف کہہ دیا کہ اگر آپ سے آئندہ کچھ پوچھوں تو مجھے ساتھ نہ رکھنا، یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے جو لڑکے کو قتل کیا شرعاً اس کے قتل کا کیا جواز تھا ؟ یہ بات کہ اس لڑکے سے خوف تھا کہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو کفر پر لگا دے گا کیا یہ دلیل شرعی ہے جس کی وجہ سے قتل جائز ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال ہماری شریعت کو سامنے رکھ کر وارد ہوتا ہے ہوسکتا ہے کہ ان کی شریعت میں جائز ہو پھر جب انہوں نے آخر میں تصریح فرما دی کہ یہ جو کچھ میں نے کیا ہے اپنی رائے سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان سے ہے تو ہر اشکال ختم ہوگیا۔ قال النووی فی شرح صحیح مسلم ومنھا بیان اصل عظیم من اصول الاسلام وھو وجوب التسلیم فکل ما جاء بہ الشرع وان کان بعضہ لاتظھر حکمۃ للعقول ولایفھمہ اکثر الناس وقد لا یفھمونہ کلھم کالقدر موضع الدلالۃ قتل الغلام و خرق السفینۃ فان صورتھما صورۃ المنکر وکان صحیحا فی نفس الامرلہ حکم بینۃ لکنھا لا تظھر للخلق فاذا اعلمھم اللّٰہ تعالیٰ بھا علموھا ولھذا قال وما فعلتہ عن امری یعنی بل بامر اللّٰہ تعالیٰ 1 ھ وقال الحافظ فی الفتح فلا یسوغ الاقدام علی قتل النفس ممن یتوقع منہ ان یقتل انفسا کثیرۃ قبل ان یتعاطی شیئا من ذلک وانما فعل الخضر ذلک لا طلاع اللّٰہ تعالیٰ علیہ وقال ابن بطال : قول الخضر واما الغلام فکان کافرًا ھو باعتبار ما یؤل الیہ امرہ ان لو عاش حتی یبلغ، مثل ھذا القتل لا یعلمہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ ان یحکم فی خلقہ بما یشاء قبل البلوغ وبعدہ انتھی۔ (28) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو کسی جان کے عوض کے بغیر قتل کردیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ کسی کو قتل کردے تو اس سے قصاص واجب ہوتا ہے حالانکہ نابالغ پر قصاص نہیں ہے علامہ نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ یہ محتمل ہے کہ ان کی شریعت میں بچے پر بھی قصاص واجب ہوتا ہو۔ (29) حضرت خضر (علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ نے اس کے والدین کو عطا کیا فرمایا۔ اس کے بارے میں امام بخاری ؓ نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ انہیں ایک لڑکی دیدی گئی۔ یہ حضرت ابن جریج کا فرمان ہے جیسا کہ فتح الباری صفحہ 421 ج 8 میں لکھا ہے نیز سنن نسائی سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ انہیں جو لڑکی عطا کی گئی تھی اس کے بطن سے ایک نبی کی ولادت ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم سے نقل کیا ہے کہ اس نبی کا نام شمعون تھا اور یہ وہی نبی تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مبعوث ہوئے جن سے بنی اسرائیل نے درخواست کی تھی کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجیے کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر فرما دے جس کے ساتھ مل کر ہم اللہ کے راستے میں جہاد کریں۔ اور ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ لڑکی ستر نبیوں کی ماں نبی (صلی اللہ علی جمیع الانبیاء والمرسلین) (30) علم کے فوت ہوجانے پر افسوس کرنا اہل علم کی خاص شان ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت خضر (علیہ السلام) کی یہ بات نقل فرمائی کہ اب ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے تو فرمایا یرحم اللّٰہ موسیٰ لوددنا لو صبر حتی یقص علینا من امرھما (صحیح بخاری صفحہ 223 ج 1) یعنی اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے (کہ انہوں نے تیسری بار بھی سوال کر ہی لیا جس کی وجہ سے جدا ہونے کی نوبت آگئی) اگر صبر کرلیتے تو مزید باتیں بھی منقول ہوتیں جو ہمیں بتادی جاتیں اور صحیح مسلم صفحہ 271 ج 2 میں ہے۔ لو صبر لرأی العجب ولکنہ اخذتہ من صاحبہ ذمامۃ کہ موسیٰ (علیہ السلام) اگر صبر کرلیتے تو اور عجیب چیزیں دیکھتے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اپنے صاحب یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) سے سوال کرتے ہوئے شرما گئے۔ آگے سوال کرنا کوئی مناسب نہ جانا۔ (31) کافر کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے جیسا کہ کشتی والوں کی پیشکش پر دونوں حضرات کشتی میں سوار ہوگئے اور بستی والوں سے کھانے کو طلب کیا۔ (32) اگر کوئی تکلیف پہنچ جائے تو بطور حکایت اور خاص کر اپنے دوستوں سے اس کا بیان کرنا بےصبری نہیں ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا) فرمایا۔ (33) کسی کا کام کرنے اور مدد پہنچانے کے لیے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے بغیر اجازت کشتی کا تختہ نکال دیا اور گرنے والی دیوار کو کھڑا کردیا۔ (ہاں اگر وہ بہت ہی بےتکا اور نافہم ضدی ہو جس کی مدد کی جائے اور شر کا اندیشہ ہو تو دوسری بات ہے۔ ) (34) (اَقْرَبَ رُحْماً ) کی ایک تفسیر تو وہی ہے جو پہلے نقل کی گئی کہ مقتول لڑکے کے بدلہ میں جو اولاد دی جائے گی وہ والدین کی خدمت اور صلہ رحمی میں بہت زیادہ بڑھ کر ہوگی اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس مقتول لڑکے کے بدلہ میں ملنے والی اولاد سے ماں باپ کو بہت زیادہ رحمت اور محبت کا تعلق ہوگا۔ (35) بدعمل لڑکے سے نیک صالح لڑکی بہتر ہے۔ (36) جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے وجود میں آتا ہے لیکن ادب ملحوظ رہے اللہ تعالیٰ کی طرف شرور اور عیوب کی نسبت نہ کی جائے حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی میں شگاف کیا تو (فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا) فرمایا اور کشتی میں عیب ڈالنے کی نسبت اپنی طرف کی اور مقتول لڑکے کے بارے میں (فَاَرَدْنَا اَنْ یُّبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا) فرمایا اور یتیم لڑکوں کے بارے میں (فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّھُمَا) فرمایا۔ (37) شریعت کے احکام کا مدار ظاہر پر ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے نائب علماء اور حکام ظاہر کے پابند ہیں اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرکے کہہ دے کہ میں نے فلاں مصلحت کی وجہ سے قتل کیا تو اس کی وجہ سے وہ قصاص سے نہیں بچ سکے گا رہا معاملہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا تو وہ چونکہ اللہ کے حکم سے تھا اسی لیے اس سے کوئی شخص یہ استدلال نہیں کرسکتا کہ میرا عمل یا فلاں پیر کا عمل فلاں حکمت پر مبنی ہے اور ہم نے جو خلاف شرع کیا ہے اس پر ہمارا مواخذہ نہ کیا جائے۔ (38) اگر عبارت کے سیاق سے بعض الفاظ کے ذکر کیے بغیر مفہوم واضح ہوجاتا تو اختصار کرنا بھی درست ہے جیسا کہ (یَاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ ) فرمایا یہاں لفظ صالحۃ کے ساتھ مقید نہیں کیا کیونکہ سیاق کلام سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ ظالم بادشاہ اچھی ہی کشتیوں کو لیتا تھا اسی لیے تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ یوں پڑھا کرتے تھے وَکَانَ اَمَامُھُمْ مَلِکٌ یَّاخُذُکُلَّ سَفِیْنَۃٍ صَالِحَۃٍ غَصْبًا (کما فی صحیح البخاری) (39) حضرت موسیٰ و خضر (علیہ السلام) کے قصہ سے معلوم ہوا کہ جیسا شریعت کا نظام ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا تکوینی نظام سے تعلق ہوتا ہے اتنی مجمل بات تو قرآن مجید سے ثابت ہوگئی اور ان احادیث شریفہ سے بھی جو قصہ مذکورہ کے بیان میں صحیحین وغیرھما میں منقول ہیں، حضرات صوفیہ کرام فرماتے ہیں کہ یہ رجال التکوین اب بھی ہیں اور ان کے عہدے بھی بتاتے ہیں شیخ عبد العزیز دباغ کی کتاب تبریز ابریز میں ان کے بارے میں بہت سی تفصیل بھی لکھی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی (رح) نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام الخبر الدال علی وجود القطب و الا وتادو النجباء والا بدال ہے اس میں انہوں نے رجال التکوین کا وجود ثابت کرنے کی کوشش کی ہے بعض احادیث مرفوعہ بھی لکھی ہیں۔ مسند احمد سے حدیث نقل کی ہے کہ حضرت علی ؓ جب عراق میں تھے تو ان سے عرض کیا گیا اے امیر المومنین اہل شام پر لعنت بھیجئے اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا میں ایسا نہیں کروں گا۔ پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ شام میں ابدال ہوں گے۔ یہ چالیس افراد ہوں گے جب بھی ان میں سے کوئی شخص فوت ہوجائے گا اس کی جگہ اللہ تعالیٰ دوسرے شخص کو بدل دیں گے ان کے ذریعہ اہل شام کو بارش عطا کی جاتی ہے اور ان کی وجہ سے دشمنوں کے مقابلہ میں اہل شام کی مدد کی جاتی ہے اور اہل شام سے عذاب ہٹا دیا جاتا ہے۔ حدیث نقل کرکے علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ رجالہ رجال الصحیح غیر شریح بن عبیدہ وھو ثقۃ۔ (40) جس بستی میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے پہنچ کر کھانے کے لیے کچھ طلب کیا یہ کونسی بستی تھی ؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں بعض حضرات نے انطاکیہ اور بعض نے ایلہ اور بعض نے جزیرہ الاندلس اور بعض نے ناصرہ اور بعض نے بوقہ بتایا ہے اس کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا مشہور ہے کہ یہ بستی انطاکیہ تھی جو شام کی سرحد پر واقعہ ہے۔ ایک قصہ کسی بزرگ سے سنا تھا یا کہیں لکھا دیکھا تھا کہ انطاکیہ والے حضرت عمر ؓ کے پاس حاضر ہوئے انہوں نے کہا اتنی اتنی رقم لے لو اور قرآن مجید میں (فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْھُمَا) کی جگہ فَاَتَوْا اَنْ یُّضَیّْفُوْھُمَا لکھ دو کیونکہ یہ ہماری بدنامی ہے جب تک قرآن مجید دنیا میں رہے گا ہماری بستی کی بدنامی ہوتی رہے گی۔ اَبَوْا کی جگہ اَتَوْا ہوجانے سے معنی بدل جاتا ہے اور مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ مہمانی کرنے کے لیے کچھ لے کر آئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اب تو کچھ نہیں ہوسکتا جب وہ حضرات تمہاری بستی میں پہنچے تھے اگر اسی وقت دو چار پیسے کے چنے پیش کردیتے تو قرآن ہی میں یہ مضمون بھی نازل ہوجاتا کہ وہ لوگ مہمانی کے لیے کچھ لائے اس کے بعد روح المعانی صفحہ 6 جلد 16 میں واقعہ کا ذکر مل گیا صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ بستی والے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں سونا لیکر آئے تھے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرت علی ؓ کے زمانہ میں یہ قصہ پیش آیا اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس قصہ کی کوئی اصل نہیں پھر لکھتے ہیں۔ وعلی فرض الصحۃ یعلم منہ قلۃ عقول اھل القریۃ فی الاسلام کما علم لؤمھم من القرآن والسنۃ من قبل۔ (یعنی اگر قصہ صحیح ہو تو اس سے مذکورہ بستی والوں کی کم عقلی کا پتہ چلتا ہے جیسا کہ قرآن و حدیث کی تصریح سے ان کا کمینہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔ ) (41) جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی میں جو شگاف کردیا تھا وہ وقتی ضرورت کے لیے تھا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ کسی طرح ظالم بادشاہ کی حدود سے نکل جائیں اور اس کے ظلم سے بچ جائیں چناچہ ایسا ہی ہوا جب آگے بڑھ گئے تو کشتی والوں نے ایک لکڑی لگا دی جس سے کشتی کا شگاف درست ہوگیا۔ وفی صحیح البخاری فاذا جاوزوھا اصلحوا فانتفعوا بھا ص 12 وعند مسلم فاذا جاء الذی یاخذھا وجدھا منخرقۃ فتجاوزھا فاصلحوھا بخشبۃ ص 271۔ اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ ظالم بادشاہ کی حدود سے آگے بڑھنے تک کشتی میں پانی کیوں نہ بھرا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے اکرام میں اسے پانی بھرنے سے محفوظ رکھا۔ فتح الباری صفحہ 419 ج 8 میں ہے کہ بعد میں حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی والوں کو شگاف پیدا کرنے کا سبب بتادیا اور یہ بھی بتادیا کہ میں نے جو یہ کام کیا ہے اس میں نیت خیر تھی اس پر ان لوگوں نے ان کی رائے کو پسند کیا اور تعریف کی، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ اس عمل کو صرف موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا اگر دوسرے لوگ دیکھ لیتے تو بظاہر آڑے آجاتے اور ایسا نہ کرنے دیتے۔ الہام حجت شرعی نہیں ہے اس کی وجہ سے خلاف شرع کوئی کام کرنا جائز نہیں بعض جاہل تصوف کے دعویدار جو یہ کہتے ہیں کہ مجھے فلاں بات کا الہام ہوا اور میں نے اس کے مطابق عمل کرلیا حالانکہ وہ عمل شریعت کے خلاف ہوتا ہے یہ سراپا گمراہی ہے بلکہ کفر ہے۔ صاحب روح المعانی صفحہ 17 ج 15 علامہ شعرانی سے نقل کرتے ہیں۔ وقد ضل فی ھذا الباب خلق کثیر فضلوا واضلوا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم پاکر کیا تھا الہام کی وجہ سے نہیں تھا۔ (43) بہت سے جاہل صوفی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ طریقت شریعت کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہے اور صاحب طریقت کے لیے شریعت پر چلنا لازم نہیں یہ بھی گمراہی اور کفر کی بات ہے طریقت شریعت کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے وہ تو شریعت کی خادم ہے نفس کو احکام شریعت پر ڈالنے اور بشاشت کے ساتھ احکام شریعت کو ادا کرنے کی محنت کے لیے حضرات صوفیاء کرام نے کچھ اعمال و اشغال بتائے ہیں مریدوں سے ان کی محنت کراتے ہیں کوئی کتنا ہی بڑا درویش اور صاحب تصوف ہو احکام شرعیہ کی پابندی اس پر بھی فرض و واجب ہے جو شخص فرائض و واجبات کا تارک ہوگا وہ فاسق ہوگا اور جو شخص یوں کہے کہ میں یا میرا شیخ شریعت کا مکلف نہیں وہ کافر ہوگا اور فاسق کسی طرح بھی پیر بنانے کا اہل نہیں ہوتا۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جو طریقے انبیاء کرام (علیہ السلام) سے آئے ہیں ان کے علاوہ بھی کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ وہ مامورات اور منہیات کو پہچان لیتا ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی حاجت نہیں ایسا شخص کافر ہے اسے قتل کردیا جائے اور یہ بھی نہ کہا جائے گا کہ توبہ کرلے تو تیرے قتل سے درگزر کردیں گے۔ (44) یہ جو بعض جاہل کہتے ہیں کہ شریعت عامۃ الناس اور کم فہم لوگوں کے لیے ہے اور خواص کو نصوص شرعیہ کی ضرورت نہیں ان کے دل صاف ہیں ان پر علوم الٰہیہ وارد ہوتے ہیں لہٰذا وہ اس کے پابند ہیں جو ان کے قلوب پر وارد ہوں۔ یہ سراپا کفر ہے حافظ ابن حجر فتح الباری صفحہ 221 ج 8 علامہ قرطبی سے نقل کرتے ہیں۔ وھذا القول زندقۃ وکفر لانہ انکار لما علم من الشرائع الخ۔ (45) حضرت یوشع (علیہ السلام) جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سفر میں گئے تھے۔ قرآن مجید کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) تک پہنچے تو دونوں تھے۔ (فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ) اس کے بعد آخر تک ان کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رہے یا کشتی میں سوار ہی نہیں ہوئے ؟ حافظ ابن حجر فتح الباری صفحہ 220 ج 1 میں لکھتے ہیں کہ یا تو ان کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ وہ تابع تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ ان کے ساتھ سوار ہی نہ ہوئے ہوں۔ لانہ لم یقع لہ ذکر بعد ذلک۔ (46) حضرت خضر (علیہ السلام) کا لقب خضر کیوں ہوا۔ اس کے بارے میں ہم پہلے ایک حدیث نقل کرچکے ہیں، ان کا نام کیا تھا اس بارے میں امام نووی (رح) نے شرح مسلم میں ایک قول تو یہ لکھا ہے کہ ان کا نام بلیا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ کلیان تھا ان کی کنیت ابو العباس اور والد کا نام ملکان بتایا جاتا ہے اور چند پشتوں کے واسطے سے انہیں سام بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں شمار کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے والد بادشاہ تھے۔ (شرح مسلم صفحہ 269 ج 2) (47) اس میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا ولی تھے۔ بعض حضرات نے ان کو ولی بتایا ہے حافظ ابن حجر ؓ نے الاصابہ میں دونوں قول لکھے ہیں ابو القاسم قشیری سے نقل کیا ہے کہ وہ ولی تھے اور ابو حیان کا قول نقل کیا ہے جو انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور (یعنی اکثر علماء) کا مذہب یہ ہے کہ وہ نبی تھے اور نبی ہونے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے ساری باتیں بتانے کی بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا (وَ مَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ) (کہ یہ جو کچھ میں نے کیا ہے اپنی رائے سے اور اپنی طرف سے نہیں کیا) اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سب کچھ اللہ کے حکم سے کیا اور اس میں گو یہ بھی احتمال ہے کہ دوسرے نبی کے واسطہ سے ہو لیکن یہ احتمال بعید ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ صرف نبی تھے یا نبی مرسل بھی تھے حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہ نبی تھے مرسل نہیں تھے۔ حافظ ابن حجر کا فرمانا یہ بھی ہے کہ ان غالب اخبارہ مع موسیٰ ھی الدالۃ علی تصحیح قول من قال انہ کان نبیا یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی جو باتیں ہوئیں ان میں اکثر باتیں اس بات کو بتاتی ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں نبی بتایا ہے ان کا قول صحیح ہے۔ (الاصابہ صفحہ 430، 431 ج 1) (48) حافظ ابن حجر نے فتح الباری صفحہ 221 ج 1 میں لکھا ہے کہ بعض جاہل یوں کہتے ہیں کہ حضرت خضر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل ہیں اور یہ لوگ اس قصے سے استدلال کرتے ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہے ان لوگوں نے صرف اسی قصے کو دیکھا اور یہ نہ دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) رسول اللہ اور کلیم اللہ تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو تورات عطا فرمائی جس میں ہر چیز کا علم تھا اور ان لوگوں نے اس بات کو بھی نہ دیکھا کہ بنی اسرائیل میں جتنے بھی نبی ہوئے ہیں وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے تابع ہیں اور ان کی نبوت کے توسط سے جو احکام پہنچے ہیں دیگر انبیاء بنی اسرائیل بھی ان کے مخاطب ہیں جن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی داخل ہیں۔ اور حضرت خضر (علیہ السلام) اگر نبی تھے تو رسول نہیں تھے (یعنی مستقل کتاب اور مستقل شریعت ان کو عطا نہیں کی گئی) اور جو نبی رسول بھی ہو وہ اس نبی سے افضل ہے جو رسول نہیں اور اگر ہم ذرا دیر کو مان لیں کہ حضرت خضر رسول تھے تب بھی موسیٰ (علیہ السلام) ان سے فضل ہیں کیونکہ ان کی رسالت اعظم ہے اور ان کی امت اکثر ہے حضرت خضر (علیہ السلام) کے بارے میں بہت سے بہت اتنی بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان سب سے افضل ہیں اور اگر یوں کہیں کہ خضر نبی نہیں تھے بلکہ ولی تھے پھر تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا افضل ہونا ظاہر ہی ہے کیونکہ ہر نبی ولی سے افضل ہے اور عقلاً و نقلاً یہ بات یقینی ہے اور اس کے خلاف جو شخص کہے گا وہ کافر ہے کیونکہ یہ ضروریات شرعیہ میں سے ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) کے پاس بھیجا تھا (اور عموماً مفضول ہی جایا کرتا ہے تو اس کا جواب ہے کہ یہ بھیجنا امتحان کے لیے تھا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) عبرت حاصل کریں کہ میں نے جو اپنے کو سب سے بڑا عالم بتادیا ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا) (فتح الباری صفحہ 221 ج 1) (49) اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی یا زندہ ہیں اس کے بارے میں حافظ ابن حجر ؓ نے الاصابہ میں سترہ اٹھارہ صفحات خرچ کیے ہیں۔ اول تو ان حضرات کا قول لکھا ہے جنہوں نے فرمایا کہ وہ وفات پاگئے ہیں اور ان لوگوں کے دلائل لکھے ہیں۔ ان میں قوی ترین دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری دور میں ایک دن عشاء کی نماز پڑھائی اس کے بعد سلام پھیر کر فرمایا کہ جو لوگ زمین کی پشت پر ہیں ان میں سے کوئی بھی سو سال کے ختم ہونے تک باقی نہ رہے گا۔ یہ حدیث امام بخاری نے کتاب العلم (باب السمر فی العلم) اور کتاب الصلوٰۃ (باب ذکر العشاء والعتمۃ ومن راہ واسعاً ) اور باب السمر فی الفقۃ والخیر بعد العشاء میں نقل کی ہے۔ اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے فرمان کے وقت سے لیکر سو سال پورے ہونے تک جو بھی کوئی شخص زمین پر موجود ہوگا زندہ نہیں رہے گا۔ حافظ ابن حجر ؓ فتح الباری صفحہ 75 ج 2 شارح مسلم علامہ نووی سے نقل کرتے ہیں کہ امام بخاری (رح) اور وہ حضرات جو حضرت خضر کی موت کی قائل ہیں انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے اور جمہور اس رائے کے خلاف ہیں اور حدیث سے استدلال کرنے والوں کو انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) اس وقت سمندر کے رہنے والوں میں سے تھے لہٰذا حدیث کے عموم میں داخل نہیں ہوئے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ علی ظہر الارض سے حضرات ملائکہ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا استثناء مقصود ہے کیونکہ فرشتے اور عیسیٰ (علیہ السلام) زمین پر نہیں رہتے حدیث بالا کے علاوہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی موت کے بارے میں حافظ ابن حجر ؓ نے حافظ ابن الجوزی سے ایک دلیل اور نقل کی ہے اور وہ یہ ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے عرض کیا تھا اللھم ان شت لم تعبد بعد الیوم اے اللہ اگر آپ چاہیں تو آج کے بعد آپ کی عبادت نہ کی جائے اور صحیح مسلم (صفحہ 84 ج 2) میں یوں ہے کہ آپ نے یوں دعا کی اللھم انک ان تشا لا تعبد فی الارض (اے اللہ اگر آپ چاہیں تو زمین میں آپ کی عبادت نہ کی جائے) حافظ ابن الجوزی نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اگر حضرت خضر (علیہ السلام) اس وقت زندہ ہوتے تو وہ بھی اس عموم میں آجاتے کیونکہ وہ تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے عبادت گزاروں میں سے تھے اگر وہ زندہ رہ جائیں اور پوری امت ہلاک ہوجائے تو یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کہ اے اللہ اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں آپ کی کوئی عبادت کرنے والا نہ رہے گا۔ اور ایک دلیل وفات خضر (علیہ السلام) کے قائلین یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر خضر (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کے وقت میں زندہ ہوتے تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ضرور آتے اور آپ پر ایمان لاتے اور آپ کا اتباع کرتے (لیکن یہ دلیل کوئی زیادہ وزنی نہیں کیونکہ اگر مضبوط دلائل سے اس کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ خدمت عالی میں حاضر ہوئے تو اس کا بھی ثبوت نہیں کہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے) فان عدم ثبوت الحضور لا یستلزم وجوب عدم الحضور اس کے بعد حافظ ابن حجر ؓ نے الاصابہ میں چند ایسی روایات درج کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے اور آپ کے بعد بھی وہ زندہ ہیں ان میں کوئی حدیث اس کے بارے میں مرفوع نہیں ہے اور جتنی بھی روایات نقل کی ہیں سب کے رواۃ میں کلام کیا ہے اور بعض کو تو موضوع بتایا ہے انہی روایات میں ابوبکر دینوری کی کتاب المجالسہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) نے فرمایا کہ میں نے خضر (علیہ السلام) کو دیکھا وہ جلدی جلدی جا رہے تھے۔ پھر یعقوب بن سفیان کی تاریخ سے نقل کیا ہے کہ رباح بن عبیدہ سے حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) نے فرمایا کہ میں نے بھائی خضر سے ملاقات کی انہوں نے مجھے بشارت دی کہ میں ولی الامر بنوں گا اور انصاف کروں گا اس کو نقل کرکے حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ ھذا اصح اسناد وقفت علیہ فی ھذا الباب) (کہ یہ صالح ترین اسناد ہے جو مجھے اس بارے میں معلوم ہوئی) (الاصابہ صفحہ 450 ج 1) بحث کے ختم ہونے پر حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ ابو حیان فرماتے تھے کہ ہمارے حدیث کے بعض شیوخ یعنی عبد الواحد العباسی الحنبلی کے بارے میں ان کے اصحاب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان سے حضرت خضر (علیہ السلام) کی ملاقات ہوتی ہے پھر فرماتے ہیں ہمارے شیخ حافظ ابو الفضل العراقی نے شیخ عبد اللہ بن اسعد یافعی سے نقل کیا ہے کہ وہ حیات خضر (علیہ السلام) کا عقیدہ رکھتے تھے جب انہوں نے یہ فرمایا تو ہم نے امام بخاری ؓ اور حربی وغیرھما کا انکار ذکر کردیا کہ وہ ان کی موت کے قائل تھے یہ سن کر وہ غصہ ہوگئے اس کے بعد حافظ لکھتے ہیں کہ ہم نے بعض ایسے حضرات کا زمانہ پایا ہے جو خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان میں سے قاضی علم الدین بساطی بھی ہیں جو ملک ظاہر برقوق کے زمانہ میں قاضی تھے۔ حضرت امام بیہقی ؓ نے دلائل النبوہ صفحہ 268 ج 7 میں حضرت زین العابدین ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو حاضرین نے گھر کے ایک گوشہ سے یہ آواز سنی۔ السلام علیکم اھل البیت ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ان فی اللّٰہ عزاءً من کل مصیبۃ وخلفاً من کل ھالک ودرکا من کل فائت فباللّٰہ فثقوا وایاہ فارجوا فانما المصاب من حرم الثواب۔ اے گھر والو تم سب پر اللہ کا سلام ہو اور اس کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں بلاشبہ اللہ کی ذات میں تسلی ہے ہر مصیبت سے اور ہر ہلاک ہونے والے کا بدل ہے اور ہر فوت ہونے والی چیز کی تلافی ہے (یعنی کوئی کیسی مصیبت آجائے اور کوئی کیسا ہی محبوب فوت ہوجائے اللہ تعالیٰ تو بہرحال ہمیشہ حیّ اور قائم اور دائم ہے اس سے محبت کرو اس سے مانگو) لہٰذا تم اللہ پر بھروسہ کرو اور اسی سے امید رکھو کیونکہ اصل مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم ہوگیا۔ یہ آواز سن کر حضرت علی ؓ نے حاضرین سے فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ کون صاحب ہیں ؟ پھر فرمایا یہ خضر (علیہ السلام) ہیں۔ اس کے بعد امام بیہقی نے ایک دوسری سند سے یہ مضمون نقل کیا ہے پھر فرمایا ہے۔ ھذان الاسنادان وان کانا ضعیفین فاحدھا یتاکد بالاخر ویدلک علی انہ لہ اصلاً من حدیث جعفر واللّٰہ اعلم۔ یعنی یہ دونوں سندیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن ایک کو دوسرے سے تقویت ملتی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ جعفر بن محمد کی حدیث کی کچھ اصل ہے جو حدیث کے راوی ہیں۔ صاحب مشکوٰۃ نے بھی صفحہ 549 میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور دلائل النبوۃ کا حوالہ دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی وفات اور حیات کے بارے میں دونوں قول ہیں اور یہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں جس پر کوئی حکم شرعی موقوف ہو اور ان کی حیات و ممات کا عقیدہ رکھنا مومن ہونے کے لیے ضروری ہو بڑے بڑے اکابر میں اختلاف ہے۔ حقیقت کو پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں جو لوگ حیات کے قائل ہیں یقینی طور پر ان کی بھی تغلیط نہیں کی جاسکتی۔ محدثین میں امام بخاری ؓ اور بعض دیگر حضرات شدت سے ان کی حیات کا انکار کرتے ہیں اور دیگر محدثین ان کی حیات کے قائل ہیں۔ سند کے اعتبار سے کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہوتا البتہ بعض صحابہ اور تابعین ان کی حیات کے قائل ہیں۔ (گو ان حضرات سے جو روایات پہنچی ہیں وہ بھی متکلم فیہ ہیں) اور رہے حضرت صوفیاء کرام تو وہ نہ صرف ان کی حیات کے قائل ہیں بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔
Top