Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے کہ میں ابھی تمہارے سامنے اس کا ذکر کرتا ہوں
ذوالقرنین کا مفصل قصہ، مغرب و مشرق کا سفر کرنا یاجوج و ماجوج سے حفاظت کے لیے دیوار بنانا مذکورہ بالا آیات میں ذوالقرنین کی شخصیت اور ان کے مغرب اور مشرق کے اسفار اور ایک قوم کی درخواست کرنے پر یاجوج ماجوج سے حفاظت کرنے کے لیے دیوار بنا دینے کا تذکرہ فرمایا ہے یہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ علماء یہود نے قریش مکہ سے کہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ سے تین باتیں دریافت کرو اگر وہ ان کا جواب دیدیں تو سمجھ لینا کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں اور نبی مرسل ہیں، وہ تین باتیں جن کا سوال کرنے کی تلقین کی تھی ان میں ایک سوال روح کے بارے میں تھا اور دوسرا سوال اصحاب کہف کے بارے میں اور تیسرا سوال ذوالقرنین کے بارے میں تھا سورة الاسراء میں روح کے بارے میں سوال و جواب گزر چکا ہے اور سورة کہف کے رکوع نمبر 2 اور نمبر 3 میں اصحاب کہف کا تذکرہ ہوچکا ہے ذوالقرنین کے بارے میں جو سوال کیا تھا یہاں اس کا جواب مذکور ہے۔ ذوالقرنین کون تھے اور یاجوج ماجوج کہاں تھے اور جو دیوار یاجوج ماجوج کے فساد سے بچانے کے لیے بنائی تھی وہ کہاں ہے یہ سوال دلوں میں ابھرتے ہیں اور ایک مومن آدمی کے لیے تو قرآن کا اجمالی بیان ہی کافی ہے لیکن اس دور میں چونکہ تحقیق اور تفتیش کا ذوق کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے اس لیے مذکورہ بالا تینوں سوالوں کا جواب آجائے تو مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ذوالقرنین کون تھے ان کا نام کیا تھا اور ذوالقرنین کیوں کہا جاتا تھا پہلا سوال کہ ذوالقرنین کون تھے اور ان کا نام کیا تھا اور ان کو ذوالقرنین کیوں کہا جاتا تھا ؟ اس کے بارے میں اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بعض لوگوں نے ذوالقرنین کو اسکندر مقدونی بتایا ہے جس کا وزیر ارسطو (فلسفی) تھا۔ محققین کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین (جنہوں نے یاجوج ماجوج کی حفاظت کے لیے دیوار بنائی تھی) وہ ایک مومن صالح آدمی تھے (اور بعض حضرات نے انہیں نبی بھی نہیں مانا ہے) اور سکندر مقدونی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جابر اور ظالم بادشاہ تھا۔ حافظ ابن کثیر ؓ نے سکندر مقدونی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اسکندریہ شہر کا بانی تھا (جو مصر میں ایک مشہور شہر ہے) اور وہ ذوالقرنین اول (جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے) سے بہت متاخر تھا یہ شخص (بانی اسکندریہ) حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً تین سو سال پہلے تھا اس نے دارا کو قتل کیا اور شاہان فارس کو ذلیل کیا اس کے بعد حافظ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں۔ وانما نبھنا علیہ الان کثیرا من الناس یعتقد انھما واحد وان المذکور فی القرآن ھو الذی کان ارطاطالیس وزیرہ فیقع بسبب ذلک خطاء کبیر و فساد عریض طویل کثیر فان الاول کان عبدا مومنا صالحا وملکا عادلا وکان وزیرہ الخضر وقد کان نبیا علی ما قررنا قبل ھذا واما الثانی فکان مشرکا وکان وزیرہ فیلسوفا وقد کان بین زمانیھما ازید من الفا سنۃ فان ھذا من ھذا لا یستویان ولا یشتبھان الا علی غبی لا یعرف حقائق الامور۔ (البدایۃ والنہایہ ص 106 ج 2) (ترجمہ) ہم نے اس بات پر اس لیے تنبیہ کی ہے کہ بہت سے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے وہ وہی ذوالقرنین ہے جس کا وزیر ارسطو تھا اور اس کی وجہ سے بہت بڑی غلطی اور بہت بڑی خرابی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ ذوالقرنین اول (جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے) وہ عبد مومن تھے صالح انسان تھے اور ملک عادل تھے اور ان کے وزیر حضرت خضر تھے اور خود بھی نبی تھے جیسا کہ ہم نے پہلے ثابت کیا ہے، اور دوسرا ذوالقرنین مشرک تھا اور اس کا وزیر ایک فلسفی تھا اور ان دونوں کے درمیان دو ہزار سے زائد مدت کا فصل تھا سو یہ کہاں اور وہ کہاں ؟ دونوں میں ایسے ہی کوڑھ مغز آدمی کو اشتباہ ہوسکتا ہے جو حقائق الامور کو نہ جانتا ہو۔ یہ بات معلوم ہونے کے بعد کہ ذوالقرنین کون تھے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے حافظ ابن کثیر نے ان کے نام کے بارے میں چند اقوال نقل کیے ہیں۔ (1) عبد اللہ بن ضحاک بن معد (2) مصعب بن عبد اللہ بن قنان (3) مرزوبان بن مرزبہ (4) صعب بن ذی مرائد (5) ہرمس (6) ہر دیس، پھر لکھا ہے کہ سام بن نوح (علیہ السلام) کی نسل میں سے تھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ بنی حمیر میں سے تھے۔ چونکہ قرآن مجید میں ان کا لقب ہی ذکر کیا ہے نام اور نسل کا تذکرہ نہیں فرمایا اس لیے اتنا زیادہ اختلاف ہوا اور اصل مقصود میں اس اختلاف سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ حافظ ابن کثیر نے حضرت ابن عمر ؓ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ذوالقرنین نبی تھے اور اسحاق بن بشر سے نقل کیا ہے کہ ان کے وزیر اور مشیر حضرت خضر (علیہ السلام) ان کے لشکر کے سب سے اگلے حصہ کے امیر تھے۔ پھر یہ بھی لکھا ہے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام) کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل ( علیہ السلام) کے ساتھ کعبہ مکرمہ کا طواف کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے پیدل حج کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے آنے کا علم ہوا تو ان کا استقبال کیا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے بادل کو مسخر کردیا وہ جہاں چاہتے تھے ان کو لے جاتے تھے۔ واللہ اعلم ذوالقرنین کا یہ لقب کیوں معروف ہوا ؟ اس سوال کے جواب میں اول تو یہ سمجھنا چاہیے کہ قرنین تثنیہ ہے قرن کا اور قرن عموماً سینگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور سو سال کی مدت کے لیے لفظ قرن کا اطلاق ہوتا ہے۔ صاحب روح المعانی نے ان کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے (ج 16 ص 24 پر) گیارہ قول نقل کیے ہیں اور ان کے لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں۔ فیھا ما لا یکاد یصح (یعنی ان میں وہ باتیں ہیں جو صحیح ہونے کے قریب بھی نہیں ہیں) ان گیارہ وجوہ میں بعض باتیں دل کو لگتی ہیں ایک تو یہ کہ ان کے زمانہ سلطنت میں دو قرنیں ختم ہوگئی تھیں یعنی دو سو سال سے زیادہ ان کی حکومت رہی۔ دوسرا یہ کہ ان کے سر میں دو سینگ تھے جیسے بکری کے کھر ہوتے ہیں اور یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عمامہ استعمال کیا تاکہ انہیں چھپا کر رکھا جائے تیسرا یہ کہ ان کے تاج میں دو سینگ تھے اور چوتھا یہ کہ انہوں نے مشرق اور مغرب کا سفر کیا تھا ہر جانب کو ایک قرن سے تعبیر کیا گیا۔
Top