Anwar-ul-Bayan - Maryam : 26
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ
فَكُلِيْ : تو کھا وَاشْرَبِيْ : اور پی وَقَرِّيْ : اور ٹھنڈی کر عَيْنًا : آنکھیں فَاِمَّا تَرَيِنَّ : پھر اگر تو دیکھے مِنَ : سے الْبَشَرِ : آدمی اَحَدًا : کوئی فَقُوْلِيْٓ : تو کہدے اِنِّىْ نَذَرْتُ : میں نے نذر مانی ہے لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے صَوْمًا : روزہ فَلَنْ اُكَلِّمَ : پس میں ہرگز کلام نہ کرونگی الْيَوْمَ : آج اِنْسِيًّا : کسی آدمی
سو تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر، سو اگر تو کسی انسان کو دیکھے تو کہہ دینا کہ میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھنے کی منت مان لی ہے لہٰذا آج میں کسی بھی انسان سے بات نہیں کروں گی۔
(فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا) (سو تو ان تازہ کھجوروں میں سے کھا اور اس نہر میں سے پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کر) یہ تیرا بچہ تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ فی معالم التنزیل یعنی طیبی نفسا و قیل قری عینک بولدک عیسی۔ طبّی اصول سے زچہ کے لیے کھجوروں کا مفید ہونا یہاں پہنچ کر جی چاہتا ہے کہ صاحب بیان القرآن کی ایک عبارت نقل کردی جائے موصوف فرماتے ہیں کہ تمہارے رب نے تمہارے پاس ایک نہر پیدا کردی ہے۔ جس کے دیکھنے سے اور پانی پینے سے فرحت طبعی ہوگی، ونیز حسب روایت روح المعانی ان کو اس وقت پیاس بھی لگی تھی اور حسب مسئلہ طبیہ گرم چیزوں کا استعمال قبل وضع یا بعد وضع سہل ولادت و دافع فضلات و مقوی طبیعت بھی ہے اور پانی میں اگر سخونت (گرمی) بھی ہو جیسا بعض چشموں میں مشاہدہ ہے تو اور زیادہ مزاج کے موافق ہوگا ونیز کھجور کثیر الغذاء مولد خون مسمن و مقوی گردہ کمر و مفاصل ہونے کی وجہ سے زچہ کے لیے سب غذاؤں اور دواؤں سے بہتر ہے۔ (فی معالم التنزیل ص 193 ج 3 قال الربیع بن خثیم ما للنفساء عندی خیر من الرطب ولا للمریض خیر من العسل) اور حرارت کی وجہ جو اس کی مضرت کا احتمال ہے سو اول تو رطب میں حرارت کم ہے دوسرے پانی سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تیسرے مضرت کا ظہور جب ہوتا ہے کہ عضو میں ضعف ہو ورنہ کوئی چیز بھی کچھ نہ کچھ مضرت سے خالی نہیں ہوتی ونیز خرق عادت (کرامت) کا ظہور اللہ کے نزدیک مقبولیت کی علامت ہونے کی وجہ سے موجب مسرت روحانی بھی ہے انتہیٰ حضرت مریم [ سے فرشتہ کا یوں کہنا کہ کوئی دریافت کرے تو کہہ دینا کہ میرا بولنے کا روزہ ہے (فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرْ اَحَدًا فَقُوْلْیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ للرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا) (سوا اگر تو کسی انسان کو دیکھے تو کہہ دینا کہ میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھنے کی منت مان لی ہے لہٰذا آج میں کسی بھی انسان سے بات نہیں کروں گی) بنی اسرائیل کی شریعت میں نہ بولنے کا روزہ بھی مشروع تھا ہماری شریعت میں منسوخ فرما دیا گیا یوں کوئی آدمی کسی ضرورت سے کم بولے یا نہ بولے اور اشارہ سے بات کرے تو یہ دوسری بات ہے لیکن اس کا نام روزہ نہ ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے اچانک ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کھڑا ہوا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ ابو اسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ کھڑا ہی رہے گا اور بیٹھے گا نہیں اور سایہ میں نہ جائے گا اور بات نہیں کرے گا اور روزہ سے رہے گا آپ نے فرمایا اس سے کہو بات کرے اور سایہ میں جائے اور بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ (رواہ البخاری ص 991 ج 2) حضرت علی ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد یاد رکھا ہے لا یتیم بعد احتلام ولا صمات یوم الی اللیل (یعنی احتلام ہونے کے بعد کوئی یتیمی نہیں اور کسی دن رات تک خاموش رہنا نہیں) (رواہ ابوداود فی کتاب الوصایا ص 41 ج 2) یعنی کسی دن رات تک روزے کی نیت سے خاموش رہنا شریعت اسلامیہ میں نہیں۔
Top