Anwar-ul-Bayan - Maryam : 39
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ١ۘ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَنْذِرْهُمْ : اور ان کو ڈراویں آپ يَوْمَ الْحَسْرَةِ : حسرت کا دن اِذْ : جب قُضِيَ : فیصلہ کردیاجائیگا الْاَمْرُ : کام وَهُمْ : لیکن وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں ہیں وَّهُمْ : اور وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
اور آپ انھیں حسرت کے دن سے ڈرایئے جبکہ فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے
یوم الحسرۃ کی پریشانی (وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ ) (اور آپ انھیں حسرت کے دن سے ڈرایئے جبکہ فیصلہ کردیا جائے گا) (وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ وَّھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) (اور وہ غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لائیں گے) ۔ اس آیت میں قیامت کے دن کو حسرت کا دن بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ انھیں اس دن سے ڈراؤ۔ قیامت کا دن بڑی حسرت کا دن ہوگا، وہاں حاضر ہونے والے طرح طرح سے حسرت کریں گے ان میں سے ایک کی یہ حسرت ہوگی کہ کاش ہم واپس کردیئے جاتے اور تکذیب نہ کرتے (یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیَاتِ رَبِّنَا) اور اپنے بڑوں کے بارے میں کہیں گے کہ اگر ہم واپس ہوجاتے تو ان سے بیزاری ظاہر کردیتے۔ (لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّأَ مِنْھُمْ ) اور یوں بھی کہیں گے اگر ہم سنتے اور سمجھتے تو آج دوزخ والوں میں شمار نہ ہوتے (لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ اَصْحَاب السَّعِیْرِ ) حسرتیں تو نہ جانے کتنی ہوں گی حدیث میں اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے ایک خاص حسرت کا تذکرہ فرمایا ہے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن موت کو چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا اے جنت والو ! یہ سن کر وہ لوگ سر اٹھا کر دیکھیں گے ان سے پوچھا جائے گا کہ تم اسے پہچانتے ہو وہ کہیں گے یہ موت ہے اور یہ اس وجہ سے کہ ہر ایک موت کو دیکھ چکا تھا پھر منادی آواز دے گا اے دوزخ والو ! وہ لوگ بھی سر اٹھا کر دیکھیں گے ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو وہ کہیں گے کہ ہاں۔ اور ان میں بھی ہر شخص موت کو دیکھ چکا تھا اس کے بعد موت کو سب کے سامنے ذبح کردیا جائے گا (جو مینڈھے کی شکل میں ہوگی) اس کے بعد یہ اعلان ہوگا کہ اے جنت والو ! تمہیں اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اب موت نہیں ہے اے جہنم والو ! تمہیں بھی اس میں ہمیشہ رہنا ہے اور اب موت نہیں ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آیت بالا تلاوت فرمائی (وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ وَّھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) (بخاری ص 291 ج 2) سنن ترمذی میں ہے کہ جب موت کو دونوں فریق کی نظروں کے سامنے ذبح کردیا جائے گا تو اہل جنت کی خوشی اور اہل دوزخ کے رنج کا یہ عالم ہوگا کہ اگر کوئی شخص خوشی میں مرتا تو اس وقت جنت والے مرجاتے اور اگر کوئی شخص رنج کی وجہ سے مرتا تو دوزخ والے مرجاتے۔ سنن ابن ماجہ میں یوں ہے کہ موت کو پل صراط پر ذبح کردیا جائے گا۔ (الترغیب والترہیب ص 544 ج 4)
Top