Anwar-ul-Bayan - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے۔ بیشک وہ صدیق تھے
توحید کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد سے مکالمہ ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے آپ کا وطن بابل کے علاقہ میں تھا جہاں نمرود کی حکومت تھی وہاں کے لوگ بت پرست تھے خود آپ کا گھرانہ بھی بت پرست تھا۔ ان کا باپ بھی بت پرست تھا جس کا نام آزر تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے تھے بت پرستی چھوڑنے کی تلقین فرماتے تھے۔ اپنے والد کو بھی انہوں نے توحید کی دعوت دی اور بت پرستی چھوڑنے کے لیے کہا سورة اعراف میں ہے (وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃً اِنِّیْٓ اَرَاکَ وَ قَوْمَکَ فِیْ ضَلٰالٍ مُّبِیْنٍ ) (اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں) یہاں سورة مریم میں حضرت ابراہیم کے مکالمہ کا تذکرہ فرمایا جو ان کے باپ سے ہوا تھا انھوں نے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ یہ تم جن چیزوں کی عبادت میں لگے ہوئے ہو یہ بت جن کی تم پرستش کرتے ہو یہ تو تم سے بھی گئے گزرے ہیں تم تو سنتے ہو اور دیکھتے ہو اور کچھ نہ کچھ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہو لیکن یہ بت تو نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف دور کرسکتے ہیں ان کی عبادت کرنا تو سراپا بےوقوفی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اپنے باپ سے مزید کہا کہ دیکھو حق اور حقیقت واضح ہونے کے لیے چھوٹا بڑا ہونے کی کوئی قید اور شرط نہیں میں اگرچہ تمہارا بیٹا ہوں لیکن خالق کائنات جل مجدہ نے مجھے وہ علم عطا فرمایا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا مجھے اس نے توحید سیکھائی ہے جو صحیح راہ ہے آخرت کے عذاب سے بچانے والی ہے تم میری بات مانو میں تم کو اسی سیدھے راستہ کی رہبری کروں گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ یہ شرک کی راہیں اور بت پرستی، غیر اللہ کی پوجا یہ سب شیطان کی نکالی ہوئی اور بتائی ہوئی چیزیں ہیں اس کی بات ماننا اس کی عبادت ہے شیطان اپنی بھی عبادت کراتا ہے اور بتوں کی بھی، تم شیطان کی بات مت مانو وہ تو رحمن جل مجدہ کا نافرمان ہے جو اس کا ساتھی بنے گا اسے بھی رحمن جل مجدہ کی نافرمانی پر جمائے گا اس کا ساتھی ہونے پر عذاب بھگتنا پڑے گا، اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ تم پر رحمن کی طرف سے کوئی عذاب نہ آجائے اور یہ شیطان کی دوستی جو دنیا میں ہے تمہیں اس کے ساتھ آخرت کے دائمی عذاب میں نہ جھونک دے اور نہ تمہاری دنیا والی دوستی وہاں کی دوستی یعنی عذاب میں شریک ہونے کا ذریعہ نہ بن جائے (وہاں تو سب دوزخی آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے لیکن چونکہ یہ دشمنی یہاں کی دوستی کی وجہ سے سامنے آئے گی اس لیے اسے بھی علی سبیل المشاکلہ (فَتَکُوْنَ للشَّیْطٰنِ وَلِیًّا) سے تعبیر فرمایا) یہ باتیں سن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے کوئی اچھا اثر نہیں لیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب دیا کیا تم میرے معبودوں سے ہٹنے والے ہو یعنی میرے معبودوں سے دور ہو ان کی عبادت کے قائل نہیں ہو ؟ اور نہ صرف یہ کہ تم ان کی عبادت سے دور ہو مجھے بھی ان کی عبادت سے روک رہے ہو اب تک جو کہا اب کے بعد اگر تو اپنی باتوں سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر ختم کر دوں گا۔ پس میرا تیرا کوئی تعلق نہیں، مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا تمہیں میرا سلام ہے (یہ وہ سلام نہیں جو اہل ایمان کو کیا جاتا ہے بلکہ جاہلوں سے جان چھڑانے کے لیے محاورہ میں سلام کے الفاظ کہہ دیے جاتے ہیں یہ اسی طرح کا سلام ہے جیسا کہ سورة فرقان میں فرمایا : (وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا) ساتھ ہی ابراہیم (علیہ السلام) نے یوں بھی فرمایا کہ میں اپنے رب سے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کروں گا میرا رب مجھ پر بہت مہربان ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چونکہ مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ فرما لیا تھا۔ اس لیے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کی جس کا سورة شعراء میں ذکر ہے (وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ ) (اور اے میرے رب میرے باپ کو بخش دے بلاشبہ وہ گمراہوں میں سے ہے) سورة توبہ میں ہے (فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اِنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّا مِنْہُ ) (پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اسے ایمان لانا نہیں ہے تو پھر اس سے بیزاری اختیار فرمائی) سورة توبہ کی آیت بالا کے ذیل میں ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مراجعہ کرلیا جائے۔ (انوار البیان جلد دوم)
Top