Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَكُلَّمَا : کیا جب بھی عَاهَدُوْا ۔ عَهْدًا : انہوں نے عہد کیا۔ کوئی عہد نَبَذَهٗ : توڑدیا اس کو فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان میں سے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : اکثر ان کے لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے
کیا جب کبھی بھی انہوں نے کوئی عہد کیا اس عہد کو ان میں سے ایک جماعت نے پھینک دیا بلکہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائیں گے۔
یہودیوں کی ایک جماعت ہر عہد کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے : تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت سرور عالم ﷺ نے یہودیوں کو تذکیر فرمائی اور جو ان سے میثاق اور قول وقرار لیا گیا تھا وہ ان کو یاد دلایا اور خاتم النّبیین ﷺ کے بارے میں جو ان سے عہد لیا گیا تھا اس کی یاد دہانی فرمائی تو وہ صاف منکر ہوگئے۔ ان میں ایک آدمی مالک بن سیف تھا اس نے کہا کہ اللہ کی قسم محمد (e) کے بارے میں ہم سے کوئی عہد نہیں لیا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اَو کُلَّمَا عٰھَدُوا عَھْدًا) (الایۃ) یعنی یہ لوگ اس عہد سے منکر ہو رہے ہیں۔ اور حال ان کا یہ رہا ہے کہ جب کبھی انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک جماعت نے اس کو پھینک دیا ان کا یہ مزاج ہے اور نقض عہد کی عادت ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ واؤ کے پہلے معطوف علیہ حذف ہے اور عبارت یوں ہے۔ اکفروا بالآیٰت و کلما عاھد وا وھو من عطف الفعلیۃ علی الفعلیۃ۔ روح المعانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس میں نبی اکرم ﷺ کو تسلی دی گئی کہ ان کی پرواہ نہ کریں اور ان کی مخالفت کو اپنے دل کا بوجھ نہ بنائیں (ص 335 ج 1) ۔ آخر میں فرمایا (بَلْ اَکْثَرُ ھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) یعنی ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائیں گے بعض یہودی مسلمان ہوگئے تھے اس لیے یہ فرمایا کہ ان میں سے اکثر ایمان نہ لائیں گے۔
Top